Maktaba Wahhabi

136 - 277
خوش فہمی کو ایک مثال سے سمجھانا بہت مناسب سمجھتے ہیں ۔ وہ یہ کہ بعض کتابوں میں درہم کی ہندی روپیہ لکھا ہ پس اگر کوئی اعمق درہم کی ہندی روپیہ لکھا ہوا دیکھ کر کہے کہ چاندی کا نصاب زکوۃ دو سو روپیہ ہے اور کوئی عاقل اس احمق کی تردید میں لکھے کہ چاندی کا نصاب دو سو روپیہ نہیں ہے،بلکہ صرف دو سو درہم ہے۔ اور اس کے ثبوت میں شرح وقایہ کی یہ عبارت پیش کرے وللفضۃ مائتادرھم ۔ اس پر وہ احمق مولانا شوق کی بعینہ یہی تقریر کرے اور اس عاقل کے جواب میں لکھے کہ ’’تعجب ہے کہ عبارت شرح وقایہ میں مائتا درھم موجود اور پھر بھی اعتراض۔‘‘اور پھر لکھے کہ’’ درہم جو عربی لفظ ہے اس کی ہندی روپیہ ہے تو چاندی کا نصاب دوسو روپیہ لکھنا غلط کیونکر ہو گیا اور یہ امر آخر ہے کہ عرب کا روپیہ یہاں کے روپیہ سے بہت چھوٹا ہوتا ہے۔‘‘ اے ناظرین!کیا اس احمق کی اس تقریر سے اس عاقل کا اعتراض اٹھ سکتا ہیں اور باوجود اس اقرار کے کہ عرب کا روپیہ یعنی درہم یہاں کے روپیہ سے بہت چھوٹا ہوتا ہے کہ چاندی کا نصاب یہاں کے روپیوں سے دو سو روپیہ بتانا صحیح ہو جائے گا۔ حاشا وکلا۔ اس مثال سے شوق صاحب کی لیاقت اور خوش فہمی بہت اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ اسی لیاقت اور خوش فہمی پر ارشاد ہو تا ہیں۔( جس کو اتنا بہی نہیں معلوم کہ کوس میل عربی کی ہندی ہے وہ کیاا ور اس کے اعتراضات کیا۔) فاعتبروا یا اولی الابصار ناظرین! اوپر تو حضرت شوق کی حدیث دانی وقابلیت کی حالت ظاہر ہوئی تھی۔ اب یہاں ان کی خوش فہمی ولیاقت کی کیفیت معلوم ہوئی پس ظاہر ہے کہ جس شخص کی یہ حالت ہو اس سے تو اسی کی امید نہیں ہے کہ میرے رسالہ کو سمجھ سکے بھلا وہ جواب کیا لکھ سکے گا۔ مولوی شوق صاحب کی تیسری وجہ مولوی شوق صاحب نور الابصار کے جواب نہ لکھنے کی تیسری وجہ یہ لکھتے ہیں کہ ’’اس رسالہ کا ماخذ وہی مذہب المختار ہے۔ اس کے مضامین کو الٹ پھیر کر کے لکھا ہے چونکہ ہم نے مذہب المختار کا تفصیلی جواب لکھا ہے اس سے اس نور الابصار کا جواب بھی ہو جاتا
Flag Counter