Maktaba Wahhabi

197 - 277
کہ جب کہ تمام فقہاء دو ہیی ہاتھ سے مصافحہ کو مسنون لکھتے ہیں۔ سراسر جھوٹ ہے۔ بجز صاحب مجالس الابرار وصاحب قنیہ وغیرہ بعض فقہائِ متاخرین کے کسی نے دونوں ہاتھ سے مصافحہ کا مسنون ہونا نہیں لکھا ہے،بلکہ بعض فقہائِ حنفیہ نے ایک ہی ہاتھ سے مصافحہ کے مسنون ہونے کی تصریح کی ہے۔ دیکھو پہلا باب مستدل کا دینی رسالہ میں ایسا صافف جھوٹ بولنا کس قدر شرم کی بات ہے۔ ایسے ہی مولوی لوگ اہلِ علم کو بدنام کرتے ہیں اور مستدل کے اس قول سے کہ کوئی حدیث ایک ہاتھ کے مصافحہ کے مخالفین پیش نہیں کر سکتے ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مستدل کو کتبِ حدیثیہ سے بالکل ناآشنائی اور بے خبری ہے۔ حتیٰ کہ اوائلِ مشکوٰۃ شریف پر بھی نظر نہیں ہے۔کیونکہ مشکوٰۃ شریف کے تیسرے ہی روق میں عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کی ایک ہاتھ(یعنی داہنے ہاتھ) سے بیعت کے وقت مصافحہ کرنے کی روایت موجود ہے۔ اور مستدل کے نزدیک مصافحہ بیعت اور مصافحہ تحیت کی حقیقت ایک ہے دونوں کے افراد میں من حیث الاخذ بالید اور بالیدین تخالف نہیں ۔ دیکھو مخالفین کی چوتھی دلیل ۔ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ ایسے ایسے ناواقف اور بے خبر حضرات رسالے تصنیف کر کے شائع کرتے ہیں۔ یہاں تک تو مستدل کی بے خبری اور ان کے جھوٹ بولنے کا تذکرہ تھا۔ اب ان بعض فقہاء کے اقوال کا جواب لکھا جاتا ہے۔ جن کی کتابوں کی عبارتیں مستدل نے نقل کی ہیں پس واضح ہو کہ اولاً: بعض فقہاء فقہائِ متقدمین سے نہیں۔ ثانیاً : ان کی کتابیں کچھ ایسی مستند اور معتمد نہیں ۔ قنیہ اور اس کے مصنف کا حال مقدمہ رسالہ میں معلوم ہو چکا ۔ اور رد المختار میں دونوں ہاتھ سے مصافحہ کا مسنون ہونا اسی قنیہ سے نقل کیا گیا ہے۔ رہی جالس الابرار سو اس میں شبہ نہیں کہ مضامین مواعظ ورد بدعات میں ایک مفیدکتاب ہے۔لیکن ان مسائل اور احکامِ شرعیہ کی بابت جو اس کتاب میں بلادلیل درج ہیں۔ اس کتاب کا معتمد ومستند ہونا فقہائِ حنفیہ سے کسی نے نہیں لکھا ہے۔ اور شیخ عبد الحق صاحب نے جو یہ لکھا ہے۔ ’’کہ باید کہ بہر دو دست بود۔‘‘
Flag Counter