Maktaba Wahhabi

220 - 277
جرح کی ہے تو ان کی جرح معتبر نہیں۔ اولا:اس وجہ سے کہ یہ جرحین مبہم ہیں اور اصول حدیث میں یہ ثابت شدہ ہے کہ جب کسی راوی میں جرح مبہم اور تعدیل جمع ہوں تو جرح مبہم قادح نہیں ہوتی ہے۔ ثانیا:اس وجہ سے کہ ابو حاتم ،نسائی اور ابن معین رحمۃ اللہ علیہ یہ تینوں متعتنین فی الرجال ومتشددین فی الجرح ہیں اور متغتین اور متشد دین کی تعدیل معتبر ہوتی ہے اور ان کی جرح غیر معتبر ،مگر جبکہ کوئی منصف غیر متشدد ان کا موافق ہو اور زیر بحث میں کوئی غیر متشدد ان کا موافق نہیں، بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی مخالفت کی ہے۔ یعنی عبد اللہ بن عبد الرحمن کی تعدیل کی ہے،پس جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ وغیرہمانے عبد اللہ بن عبدا لرحمن کی تعدیل وتوثیق کی ہے اور ابو حاتم اور نسائی وغیرہما کی جرحیں غیر قادح وغیر معتبر ہیں،تو عبد اللہ بن عبد الرحمن کا مقبول وقابل احتجاج ہونا صاف ظاہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد اور امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ ایسے نقادان فن نے عمر و بن شعیب کی روایت کردہ حدیث کو صحیح وقابل احتجاج بتایا ہے۔ اور اس پر عمل کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ابن عدی نے صاف صراحت کر دی ہے کہ عبد اللہ بن عبد الرحمن کی حدیثیں جو عمر و بن شعیب سے مروی ہیں وہ مستقیم ہیں۔ تعجب ہے امام طحاوی اور علامہ علا و الدین وغیرہما پر کہ ان لوگوں نے ابو حاتم ونسائی وغیرہما کی جرحح مبہمہ غیر قادحہ کا تو لحاظ اور اعتبار کیا اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کی توثیق وتعدیل کا خیال نہ فرمایا۔ اچھا اگر ان لوگوں کے نزدیک عبد اللہ بن عبد الرحمن متکلم فیہ تھے اور ان کی وجہ سے عمر وبن شعیب کی روایت مذکورہ ضعیف تھی تو کیا جوبہ شواہد ومویدات مذکورہ کے (جن کی تعداد دس تک پہنچی ہے)بھی مقبول وقابل احتجاج نہیں ہو سکتی ہے۔ فسامحھم اللہ تعالیٰ۔ سوال نمبر 3: یحییٰ بن معین نے اگرچہ عبد اللہ بن عبد الرحمن کے بارے میں صالح لکھا ہے، مگر ان کی تضعیف بھی کی ہے، جیسا کہ جر ہر النقی کی عبارت منقولہ سے معلوم ہوا اور میزان الاعتدال میں ہے وقال مرۃ ضعیف یعنی ابن معین نے ایک مرتبہ کہا کہ عبد اللہ
Flag Counter