Maktaba Wahhabi

239 - 277
پھر علامہ ممدوح لکھتے ہیں۔ واما جواب ابی موسیٰ فیحتمل انہ تادب مع ابن مسعود فاسند الا مر الیہ مرۃ وکان عندہ فیہ حدیث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فذکرہ مرۃ اخری۔ کہ ہو سکتا ہے کہ ابو موسیٰ نے بپاس ادب مسائل کو ابن مسعود کی طرف مرفوع کا حکم دیا ہو باوجود یکہ آپ کو حدیث مرفوع کا علم ہو اور ہو سکتا ہے کہ کبھی اس حدیث مرفوع کو ذکر بھی کیا ہو۔ اقول:علامہ ممدوح کو پہلے زیادت رفع کی صحت ثابت کرنا چاہیے، پھر اس کے بعد اس جمع وتوفیق کو بیان کرنا چاہیے۔ ثبت العرش فانقش اور پھر علامہ ممدوح نے عبد الرحمن بن ثابت کے بارے میں بعض محدثین سے تعدیل وتوثیق نقل کی ہے،مگر ابو عائشہ کی تعدیل وتوثیق سے بالکل خاموشی اختیار کی ہے تو کیا صرف عبد الرحمن بن ثابت کے ثقہ ہونے سے ابو عائشہ کے مجہول ہونے سے قطع نظر بھی کر لیں۔ اور عبد الرحمن بن ثابت کو بھی ثقہ فرض کر لیں تو کیا صرف عبد الرحمن کے ثقہ ثابت ہو جانے سے ان کی روایت میں زیادتی علت شذوذ سے پاک ہو جائے گی؟ ہر گز نہیں زیادت رفع میں عبد الرحمن بن ثابت نے ایک نہیں، بلکہ کئی اوثق راویوں کی مخالفت کی ہے پھر علت شذوذ سے مبر کیونکر ہو سکتی ہے؟ پھر علامہ ممدوح چند موقوف راویتوں کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ ان موقوف راویتوں سے حدیث مرفوع کی تائید ہوتی ہے ،حالانکہ ان موقوف روایتوں سے حدیث مرفوع کی تائید نہیں ہوتی ہے ،بلکہ ان موقوف روایتوں سے زیادت رفع کا غیر مقبول ہونا اور غیر معتبر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کما تقدم تقریرہ فتذکر۔ الحاصل: امام بیہقی کے کلام مذکور کے جواب میں جتنی باتیں علامہ علاؤالدین نے لکھی ہیں وہ سب کی سب تعجب خیزوحیرت انگیز ہیں۔ ہمارے اتنے بیان سے ونیز دیگر بیانات سے جو اس رسالہ میں علامہ ممدوح سے متعلق ہیں۔ مجملاً معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ نے جوہر النقی میں سنن کبریٰ کی کیسی تردید کی ہو گئی؟ اور جو ہر النقی کی حقیقت اچھی طرح سے اس وقت ظاہر ہو گی جب ہمارا رسالہ تنقید الجوھر چھپ کر شائع ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
Flag Counter