Maktaba Wahhabi

130 - 236
کرنا ہوتا ہے بلکہ ہر عالم اعلم کی طرف اور مفضول افضل کی طرف بوقتِ ضرورت رجوع کرے گا۔ یہ فطرت کا تقاضا بھی ہے اور قرآنِ عزیز کا ارشاد بھی۔ اس حقیقت سے نہ کسی نے انکار کیا نہ اس کا انکار ممکن ہے۔ بلکہ متاخرین کے علم کی تو بنیاد ہی متقدیم کے علوم پر ہے۔ ہم لوگ اسے تقلید نہیں سمجھتے بلکہ یہ علمی استفادہ ہر ایک ذہن ؟؟؟ پر دوسرے کو مطمئن کرتا ہے۔ دوسرا ذہن تقلیداً نہیں بلکہ تحقیقی طور پر علم وفکر سے متاثر ہوتا ہے۔ اسے تقلید کہنا غلط ہے۔ اگر آپ اس اصطلاح پر مصر ہو تو ہم اسے خارج از بحث سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ نہ ابو یوسف اور محمد رحمہما اللہ امام حنفیہ کے مقلد تھے نہ مزنی شافعی کے مقلد نہ اشہب اور ابن وقت مالک کے مقلد نہ ابو داؤد اور ابن قدامہ ابن تیمیہ اور امام احمد کے مقلد۔ یہ ایک تلمیذ کا اپنے شیخ سے تاثر ہے جس کے نتیجہ میں بعض مسائل میں وہ اپنے شیخ سے متفق رہے اور بعض مسائل میں اپنے شیخ سے اختلاف کیا۔ اس کا جو نام آپ رکھیں یہ علمی استفادہ ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ مولانا کا ارشاد: ’’تقلید کی ان دونوں قسموں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک شخص براہِ راست قرآن وسنت سے مسائل مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ جسے قرآن وسنت کا ماہر سمجھتا ہے اس کے فہم وبصیرت اور فقہ پر اعتماد اور اس کی تشریحات پر عمل کرتا ہے۔‘‘ صفحہ 14 کلمۂ حق ارید بہ التمویہ کے سوا کچھ نہیں۔ اگر مستفید جاہل ہے تو وہ امام یا مسئول کی مہارت کیسے معلوم کرے گا۔ اگر مہارت علمی کا جائزہ لے سکتا ہے تو وہ اس کی فقہ پر کیوں اعتماد کرے۔ اس کے باوجود حاصل تو یہی ہوکا کہ یہ اعتماد وہی لوگ کریں گے جن کو ذاتی بصیرت اور تفقہ سے حصّہ نہ ملا ہو۔ اس کے بعد مولانا نے تقلید مطلق کے اثبات پر جن آیات اور احادیث سے استدلال کیا ہے اس پر گفتگو کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کا اتباع اور اطاعت تو طبعا درست ہے۔ گو ایک آیت بھی اس کی تائید نہ کرے لیکن یہاں پہنچ کر مولانا کے انداز میں ضیق سا پیدا ہوگیا ہے۔ مزاج میں وہ وسعت نہیں رہی جو ابتدائی سطور میں تھی۔ مولانا اُسی سطح پر اُتر آئے جس پر مولانا مرتضیٰ حسن صاحب دیوبندی رہے اور اسی انداز کے لوگ اس موضوع پر گفتگو فرمایا کرتے تھے۔
Flag Counter