آیت1: وله ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم (نساء 83) اگر وہ خوف امن کی مصنوعی اطلاعات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے با اختیار صحابہ کے سامنے پیش کرتے تو وہ اس سے صحیح نتائج اخذ فرماتے۔ جصاص وغیرہ نے نقل اقوال کے سلسلہ میں علماء وفقہاء وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ لیکن سیاق اس عموم اور شمول سے اباء کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مدینہ منورہ میں مرجف اور ارباب نفاق کی ایک خاصی تعداد موجود تھی جو امن اور خوف کی افواہیں اڑاتے رہتے تھے۔ اس سے بدمزگی اور بدامنی پیدا ہوئی۔ مسلمان بعض وقت سادہ لوحی سے ان افواہوں کا شکار ہوجاتے تھے جس سے بد امنی کا خطرہ ہوجاتا۔ اس حرکت سے اہل ایمان کو روکا گیا اور ہدایت فرمائی کہ ایسی باتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر صحابہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہئے۔ اولی الامر کے معنی میں علامہ جصاص کے رجحان کے لئے واقعی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن سورۃ نساء کی آیت میں قرائن کا تقاضا شرعی مسائل اور فقہی موشگافیوں کی بجائے سیاسی افواہوں اور ارجاف کی مساعی کو ناکام کرنا ہے اس لئے اس آیت کو مصطلح تقلید کی کسی قسم سے بھی تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ غایت یہ کہ اس میں استنباطِ احکام کی اجازت دی گئی ہے۔ اور اسے اولی الامر اور ارباب اختیار کا فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس رکوع کے بعد دور تک جنگ کے اثرات اور اہل نفاق کی شرپسندیوں کا تذکرہ چلا گیا ہے۔ اس لئے اولی الامر سے فقہاء وعلماء مراد لینا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ علامہ جصاص نے مناظرہ انداز سے دفاع فرمایا ہے جو چنداں وزنی نہیں۔ مولانا اگر اس کے آگے دو تین رکوع ملاحظہ فرمائیں گے تو یقینا میری گزارش کو صحیح تصور فرمائیں گے لیکن ایام جنگ کے مخصوص حالات کو مولانا اشاعت دین کے پر امن حالات پر مسلط فرمانا چاہیں تو وہ مختار ہیں۔ دوسری آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں۔ ملک میں جنگ ہو یا صلح، تبلیغ واشاعت دین، تعلیم وتدریس اور تفقہ فی الدین کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ یہ اہل علم جنگ وغیرہ مشاغل سے واپس آنےو الوں کو دین اور اسلام کی باتیں سکھانی چاہئیں۔ اس میں تقلید مروّج کی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ درس وتدریس، تعلیم وتعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے تاکہ جنگوں کے مشاغل اور کاروبار کے جھمیلوں میں دینی علوم ضائع نہ ہوجائیں۔ اور علم ودانش کی محفلیں ویراں نہ ہوجائیں۔ تقسیم کار کے طور پر کچھ لوگ اسلامی |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |