Maktaba Wahhabi

150 - 236
دونوں پر عمل رہا تھا ( یعنی بقول جناب ورنہ حقیقت اس کے خلاف ہے) بعد میں جب یہ زبردست خطرہ سامنے آیا تو تقلید کو تقلید شخصی ہی میں محصور کر دیا گیا۔ الخ۔ اس کے بعد جناب شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے چند اقتباسات درج فرمائے ہیں جن میں کہیں تقلید کو جائز فرمایا کہیں واجب۔ واقعہ یہ ہے کہ شاہ صاحب کی زندگی کے مختلف ادوار ہیں۔ شاہ صاحب کا سیال قلم ان تمام ادوار میں اپنا کام کرتا رہا۔ ہر وقت کے تاثرات شاہ صاحب کے قلم سے ظاہر ہوتے رہے۔ شاہ صاحب کا جو حصہ تصوّف کے متعلق ہے اس میں ایسا مواد ملتا ہے جس سے بریلویت کی خاصی تائید ہوتی ہے۔ بریلوی حضرات کو شاہ صاحب اور اُن کے خاندان پر اعتماد نہیں۔ ورنہ شفاء العلیل وغیرہ سے بدعی خیالات کی خاصی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اہل حدیث اور حضرات دیوبند تو شاہ صاحب کے عقیدتمند ہیں۔ جہاں تک اہل حدیث کا تعلق ہے یہ جاننے کے باوجود کہ شاہ صاحب کا رجحان احناف کی طرف بعض جگہ نمایاں ہے ان کے ہاں شاہ صاحب کے احترام اور ان سے عقیدت میں فرق نہیں آیا۔ شاہ صاحب جمود کے سخت مخالف ہیں۔ آج جو بیداری اور حریتِ فکر ملک میں موجود ہے اس کی ابتدا حضرت مجدد الف ثانی سے ہوئی لیکن اسے کھل کر نمایاں حضرت شاہ صاحب نے فرمایا۔ اسی بیداری کی تحریک نے شاہ اسماعیل شہید اور ان کے مخلص رفقاء میں ترک تقلید کی صورت اختیار کر لی جسے مولانا سیّد نذیر حسین صاحب اور ان کے تلامذہ نے پروان چڑھایا جس سے اس وقت لاکھوں آدمی متاثر ہیں۔ جو ملک میں حریّت فکر اور طریقہ سلف کی تلقین فرما رہے ہیں۔ مولانا نے شاہ صاحب سے تین اقتباس درج فرمائے ہیں۔ دو رسالہ انصاف سے ایک حجۃ اللہ سے۔ مگر شاہ صاحب نے انصاف کے دونوں اقتباسات میں تقلید کو وقتی طور پر واجب فرمایا شرعی واجب نہیں فرمایا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت ان حالات میں تقلید ضروری ہے۔ فرماتے ہیں: "پہلی دوسری صدی میں لوگ معین انسان کی تقلید پر جمع نہ تھے۔ دوسری صدی کے بعد اثر بڑھنے لگا۔ وکان ھو الواجب فی ھذا الزمان" (اس وقت یہی واجب تھا) فرمائیے کیا واجبات شرعیہ کا وجوب وقتی 
Flag Counter