Maktaba Wahhabi

151 - 236
ہوتا ہے یا دائمی؟ دوسرے اقتباس میں صرف ونحو کا تذکرہ فرماتے ہیں یہ پہلے واجب نہ تھا ثم صار فی یومنا ھذی معرفتھا واجبۃ لیکن آج کل صرف و نحو پڑھنا واجب ہے۔ گویا تقلید شخصی کا وجوب صرف ونحو کے وجوب کی طرح وقتی ہے اور ضرورت کے لیے حضرت مولانا اور دانش مند حضرات غور فرمائیں وجوب شرعی کا یہی حال ہے اور ایسے وقتی وجوب کا اگر کوئی انکار کرے یا اسے یقین ہو کہ اب حالات کے تقاضے بدل چکے ہیں تو شرعاً وہ کہاں تک مجرم ہے۔ اس کے ساتھ ہی واقعات آپ کو یقین دلائیں گے کہ ترکِ تقلید کے متعلق اس وقت جو خطرات تھے بحمد اللہ آج وہ بالکل بدل چکے ہیں جناب کے لب و لہجہ کی یہ تبدیلی اسی حقیقت کی غماز ہے کہ اب وہ حالات نہیں رہے۔ وقت اور اس کے مقتضیات اصحابِ عزائم کی مساعی کی وجہ سے بالکل یا زیادہ تر بدل چکے ہیں۔ حجۃ اللہ کے اقتباس میں تو شاہ صاحب نے اسے تعبیر ہی جواز سے فرمایا ہے۔ مگر مولانا اور آپ کے رفقاء شاہ صاحب کے ارشاد کو اس کی اصل روح میں سمجھیں تو یہ وجوب تقلید کی کھلی مخالفت ہے۔ ان فی ذالک لذکرٰی لمن کا ن لہ قلب او القی السمع و ھو شہید۔  اب شاہ صاحب کا ایک ارشاد عرض کررہا ہوں جو جناب کے اس ارشاد کی پوری نقیض ہے کہ تقلید کو تقلید شخصی میں محصور کردیا گیا۔ شاہ صاحب شعرانی کے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں: ثم نقل عن جماعۃ عظیمۃ من علماء المذاھب انھم کانوا یعملون و یفتون بالمذاھب من غیر التزام مذہب معین عن زمن اصحاب المذاھب لی زمانہ علی وجہ یقتضی کلامہ ان ذالک امر لم یزل العلماء علیہ قدیما و حدیثا حتی صار بمنزلۃ المتفق علیہ فصار سبیل المؤمنین الذی لا یصح خلافہ الخ۔ (عقد الجید طبع مصر صفحہ 152) اہل علم کی عظیم جماعت مذہب معین کے بغیر فتویٰ دیتی رہی اور ان پر عمل فرماتی رہی اور یہ سلسلہ ائمہ مذاہب سے لے کر شعرانی کے وقت تک جاری رہا۔ شعرانی کا منشاء یہ ہے کہ علماء کی یہ روش ہمیشہ سے ہمیشہ تک رہی ہے اور طریقہ متفقہ اور اجماعی ہو گیا جس سے اختلاف طریقِ مؤمنین سے اختلاف کے 
Flag Counter