ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ائمہ مجتہدین کی جلالتِ قدر ہر لحاظ سے مسلم ہے۔ ان کا علم ’زہد‘ تقویٰ شبہات سے بالا ہے۔ ان کی ذات علم وایمان کے لحاظ سے قطعاً زیر بحث نہیں، بلکہ ان کے علمی احسانات امر پر اس قدر ہیں کہ ان کے متعلق سوءِ ظن ہے بے ادبی نہیں بلکہ ناما نمک حرامی ہے۔ اب زیر بحث چند چیزی ہیں: 1. آیا قرآن وسنت میں کوئی نام بطور مجتہد یا امام صراحۃً مرقوم ہے؟ 2. پھر ان تمام بزرگوں کا علام یکساں تھا یا حسب ارشاد قرآن وفوق كل ذي علم عليم ان کے علمی درجات میں تفاوت ے؟ 3. پھر ان پاکباز بزرگوں کے سامنے آیا احادیث کے جو ذخایر مختلف ممالک میں موجود تھے یکجا شائع ہو چکے تھے یا مخفی تھے؟ 4. پھر آیا یہ سارے بزرگ اجتہاد مسائل میں متفق ہیں ان کی فقہیات میں باہم کوئی اختلاف نہیں؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالیہ گزارشات کا جواب نفی میں ہے نہ شارع نے ان کا بطور بطور امام لیا ہے نہ ہی ان کا علم یکساں ہے۔ نہ ہی سنت کے ذخائر اس وقت موجود تھے۔ نہ ہی اس کے اجتہادات اختلاف سے خالی ہیں۔ پھر ایک عامی فقدان علم یا کم علمی کی وجہ سے ان تمام اجتہادات کو قبول کرے گا جو ان میں کسی ایک بزرگ نے ادا فرمائے جس کو اس نے امام یا مقتدیٰ تصور کیا۔ دوسرے امام کے تما اجتہادات کو نظر انداز کرے گا جن میں اس نے اس کے امام سے اختلاف کیا ہو۔ آپ نے پہلے فرمایا تقلید مطلق کو اس لئے روک دیا گیا کہ اس سے خواہش پرستی کا خطرپیدا ہو سکتا تھا اور ممکن ہے کہ حلال وحرام کا امتیاز اٹھ جائے (فاران 17 مئی 1965ء) آپ کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ آئمہ مجتہدین کے اجتہادات اور فقہیات میں ایسا مواد موجود ہے جس سے نفس پرستی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ گو یہ درست ہے کہ مروجہ تقلید، بت پرستی کی تقلید سے مختلف ہے، لیکن اس میں یہ خطرہ موجود ہوگا کہ نفس پرستی میں ملث ہو کر مقلد حلال وحرام کے امتیاز کو کھو بیٹھے۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |