Maktaba Wahhabi

200 - 236
دور اندیش طبایع کے لیے اسی میں دورس عبرت ہے۔ ﴿ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ 37؀ ﴾(ق:37) مصر اور سوڈان کے علاقوں میں اہل علم اور ائمہ سنت کا طوطی بولتا تھا قرآن وسنت اور سلف کا طریق عام تھا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ 198ھ میں مصر تشریف لائے اور اپنے علمی فیوض سے سر زمین مصر کو سیراب فرمایا۔ ربیع سن سلیمان امام اسماعیل ین یحییٰ مزنی، حافظ یوسف بن یحییٰ بویطی وغیرہم کی وجہ سے شافعیت مصر میں عام ہو گئی۔ (الخلط صفحہ 145 ج 4) اس کے بعد فاطمیوں کے عروج نے ساری صورت حال کو بدل کر رکھ دیا۔ 358ھ میں مصر پر تشیع اور رفض چھا گیا۔ فاطمی اور دوسرے روافض جو دھاندلیاں کر سکتے تھے کرتے رہے۔ مصر کے در ودیوار پر صحابہ اور ائمہ سلف پر تبرا کے بورڈ آویزاں تھے۔ 564ھ کے پش وپیش سلطان نور الدین محمود بن زنگی کی فوجوں نے اس دور کا خاتمہ کیا۔ مقریزی نے خطط جلد 4 میں اس  دو جزء اور عروج وزوال کا مفصل تذکرہ فرمایا۔ مقریزی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے، مذاہب اربعہ میں مناقشات جاری رہے۔ عہدہ قضاء کی وجہ سے اکھاڑ بچھاڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ اہل علم کی کمزوری تھی کہ مسلمان اور سنی سمجھنے کے باوجود وہ رارات اور باہم خوشدلی سے گذر نہ کر سکے۔ افتاء اور قضاء نے کاروباری انداز اختیار کر لیا۔ وقت کی حکومت بھی ان حضرات کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتی اور اپنےسیاسی مفاد حاصل کرتی رہی۔ ابتداءً ائمہ اسلام ان درباروں کی حاضری سے پرہیز کرتے رہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اس عباسی اور اموی دونوں درباروں نے عہدہ قضاء کی پیش کش کی۔ امام موصوف مدت العمر اس سے انکار فرماتے رہے اور قریبا دونوں درباروں کے معتوب رہے۔ لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد نے
Flag Counter