یہ عہدے قبول کر لیے۔ مصالح بدلتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے اس سے کوئی نقصان بھی ہوا ہوا۔ مگر بظاہر تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ کو دینی اور دنیوی دونوں قسم کے فوائد حاصل ہوئے۔ فقہ حنفیہ کی اشاعت میں ان کے اس تعق سے بہت مدد ملی۔ اور مذاہب اربعہ کا جہاں بھی زور ہے وہاں دلائل سے زیادہ اسی قسم کے موثرات کا نتیجہ ہے۔ الخطط للمقریزی، مقدمہ ابن خلدون، البدایۃ والنہایۃ وغیرہ کتب تاریخ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ اگر حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی روش کی پابندی فرماتے تو قرین قیاس ہے کہ حنفی مسلک کی اس قدر کثرت نہ ہوتی۔ لوگوں نے حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی اس روش پر تنقید بھی کی ہے۔ کچھ جھوٹی سچی کہانیاں بھی تاریخ الخلفاء سیوطی اور بعض دوسری کتب میں مرقوم ہیں۔ صورت حال کوئی بھی ہو مگر مسلک کی اشاعت میں یقیناً اس سے بڑی مدد ملی۔ اسی طرح افریقہ، حجاز، مصر اور نجد میں حکومتوں نے جس مسالک کی اعانت حکومت کی سطح پر کی ان علاقوں میں ان مسالک کو بڑی ترقی ہوئی اور خوب پھیلے۔ مسلک اہل حدیث کو یہ مواقع کم ملے۔ یہ بے چارے یوں ہی درباروں کی زندگی سے بھاگتے رہے۔ اس لئے تاریخ نے انہیں نسیان وخمول کی دبیز تہوں میں دبا دیا۔ اچھے پڑھے لکھے حلقوں میں اب بھی یہ علی الاعلان کہا جا رہا ہے یہ کوئی مکتب فکر ہی نہیں تھا۔ یہ محض حفاظ حدیث کی جماعت تھی جس میں تفقہ اور درایت ناپید تھی۔ وہ اجتہاد اور استنباط کی راہوں سے نا آشنا تھے۔ حالانکہ تمام مسلاک جن کا تعلق سنّت سے ہے یا بدعت سے وہ اپنی اور مسلک کی صحت اور درستگی کے لئے اس مسلک کو معیار اور کسوٹی سمجھتے تھے۔ اور یہ حضرات بھی علم کلام اور فلسفہ سے لے کر فقہ، اصول فقہ، تجوید، نحو، معانی، بیان، ادب اور تاریخ میں مجتہدانہ افکار رکھتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں (نقض المنطق ص16) حدیث اور سنّت کی عظمت تمام فرقوں کا اجماع ہے اور ان کی متفقہ شہادت ہے کہ حق ائمہ سنت میں ہے اسی لئے جو لوگ ائمہ حدیث کے زیادہ موافق ہوں وہ ان فرقوں میں دوسروں کی نسبت زیادہ عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ خود امام ابو الحسن علی بن اسمٰعیل اشعری چونکہ امام احمد اور دوسرے ائمہ سنت سے زیادہ قریب تھے۔ اس لئے وہ اپنے اتباع میں عزت |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |