للذھبی صفحہ 627 جلد 2) اس زمانہ (282ھ) میں ائمہ حدیث کی بڑی تعداد موجود تھی یہاں میں نے ان کا عشر عشیر بھی نہیں لکھا- میں نے ان کا مفصل تذکرہ تاریخ اسلام میں کیا ہے- اسی طرح ائمہ رائے اور فقہاء فروع اور شیعہ اور معتزلہ سے بھی اہل علم کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ انہوں نے ان لوگوں کے آثار نبویہ اور سلف کی راہ سے اعراض کیا اور فقہاء میں تقلید اور متناقض اجتہادات کی گرم بازاری ہوئی۔ اور ذھبی اس شذرہ کے آخر میں فرماتے ہیں۔ "میرا خیال ہے کہ جب کہیں دقت محسوس ہوئی تم ہوا کے کندھوں پر سوار ہو کر کہنے لگو گے۔ احمد کون ہے، علی بن مدینی کیا ہے۔ ابو ذرعہ اور ابو داؤد کی حیثیت کیا ہے یہ لوگ صرف محدث ہیں، یہ فقہ نہیں جانتے۔ اصول فقہ سے ناواقف ہیں۔ رائے کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ معانی، بیان، منطق اوی علم البرہان سے نا آشنا ہیں۔ خدا کو دلائل سےنہیں مانتے۔ ذہبی فرماتے ہیں یا تو چپ رہو یا علم کی گفتگو کرو علم وہی ہے جو ان لوگوں کی معرفت آئے۔" اس مقام پر ائمہ حدیث کا تذکرہ فقہاءمجتہدین کے بالمقابل ذکر فرمایا ہے۔ان کے تفقہ اور ان کے علم کی حقانیت کا بھی ذکر فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا کی مستقبل میں تقلید اور متناقض اجتہادات کا دنیا میں فروغ ہو رہا ہے اور علوم حقہ اور اہل فن پر طعن کی راہیں کھل رہی ہیں۔ بقی بن مخلد کے تذکرہ میں مرقوم ہے۔ بقی بن مخلد نے اہل حدیث اور اثار کے مسلک کا اظہار کیا تو لوگ ان پر تعصب کرنے لگے۔ اندلس کے امیر محمد بن عبدالرحمٰن مروانی نے ان کو ہٹایا اور ان کی کتابیں نقل کرائیں اور فرمایا تم اپنے علم یعنی آثار اور احادیث کی اشاعت کرو۔ ابوعبداللہ محمد بن ابی نصر حمیدی کے تذکرہ میں فرمایا حمیدی پرہیزگارٗمتقی اور امام تھے۔ حدیث اور رواۃ کے علل کو جانتے تھے۔ اہل حدیث کے مذہب کے مطابق اور کتاب و سنت کی روشنی میں انہوں نے اصول وضع فرمائے۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |