Maktaba Wahhabi

227 - 236
عوام گھبراتے تھے اور مشہور آئمہ کی آراء اور اجتہادات پر عمل روز بروز بڑھ رہا تھا ۔ چوتھی صدی کے اواخر میں تقلید کی رسم عام ہوگئی ، جمود اور عصبیت کے آثار پیدا ہوگئے ۔ ابن حزم ابن قیم ابو طالب مکی صاحب قوت القلوب ابو شامہ مولف المؤمل اور شاہ ولی اللہ صاحب رحمہم اللہ تعالی کے ارشادات بھی قریبا اسی طرح ہیں جن کا اوپر تذکرہ ہوا ۔ امام ابو جعفر الطحاوی 321ہ کی مختصر اور معانی الآثار ملاحظہ فرمائیں ، امام ابن تیمیہ کو ان کی روش پر اعتراض ہے کہ وہ حنفیت کی نامناسب حمایت فرماتے ہیں آئمہ حدیث کی نظر میں وہ متعصب شمار ہوتے ہیں ۔ بیہقی نے سنن کبری ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ انہی کے جواب میں لکھی ۔ لیکن آپ ان دونوں کتابوں کو ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ امام طحاوی کی روش آج کے دیوبند سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف فرماتے ہیں ۔ کبھی صاحبین کا قول اختیار فرماتے ہیں ، کبھی ان سے کسی ایک کے ساتھ اتفاق فرماتے ہیں ، بعض مقامات پر امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں ۔ چنانچہ امام صاحب اور صاحبین ضب کو حرام سمجھتے ہیں امام طحاوی فرماتے ہیں : و نحن لانرى بأكله بأسا ( مختصر الطحاوي ص 441 ) ہم گوہ کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔ امام طحاوی اونٹ کے پیشاب اور گھوڑے کو حلال سمجھتے ہیں( مختصر الطحاوی ص 444 ) یہ چوتھی صدی کے اس امام کا عمل ہےجسے متعصب سمجھا جاتا تھا ۔ آج کے حضرات دیوبند غور فرمائیں کے وہ کہاں جا رہے ہیں ۔ غرض پانچویں اور چھٹی صدی میں عصبیت اور جمود کے بادل اور بھی گہرے ہوگئے  اور محققین کی شدید قلت محسوس ہونے لگی ۔ نمائشی القاب اور فقہی موشگافیاں مدار علم قرار پائیں اور قریبا آٹھویں صدی تک یہ سلسلہ بڑھتا گیا ۔ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ بحوالہ سخاوی ’’شیخ الاسلام‘‘ کے لفظ کے استعمال کے متعلق فرماتے ہیں : ثم اشتهر بها جماعة من علماء السلف حتى ابتذلت على رأس المائة الثامنة فوصف بها من لا يحصى و صار لقبا لمن ولي القضاء الأكبر ولو عرى من العلم والسن فإنا لله و إنا إليه رجعون - آئمہ سلف کے بعد شیخ الاسلام کا لقب آٹھویں صدی ہجری میں ذلیل ہوگیا اور بے شمار نوجوان لوگوں پر بولا 
Flag Counter