مرنے والے کا کسی کو نقصان پہنچانا بایں طور ہے کہ وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کر دیا جائے یا کسی کا حصہ کم کر دیا جائے یا کسی کا حصہ بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے،درآں حالیکہ کچھ بھی نہ لیا ہو،گویا اقرار کا تعلق وصیت اور قرض دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔نیز ایسی وصیت بھی باطل ہے۔
58۔کلالہ کی وراثت:
پارہ 6{لَا یُحِبُّ اللّٰہُ}سورۃ النساء (آیت:۱۷۶) میں فرمایا:
{یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ اِنِ امْرُؤٌا ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗٓ اُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَھُوَ یَرِثُھَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھَا وَلَدٌ فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَھُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ وَ اِنْ کَانُوْآ اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ}
’’(اے پیغمبر!) لوگ تم سے (کلالہ کے بارے میں ) حکمِ (الٰہی ) دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ کلالہ کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا مرد مر جائے،جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ ماں باپ) اور اس کی بہن ہو تو اُس کے بھائی کے ترکے میں سے آدھا حصہ ملے گا اور اگر بہن مر جائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اُس کے تمام مال کا وارث بھائی ہوگا اور اگر (مرنے والے بھائی کی) دو بہنیں ہوں تو دونوں کو بھائی کے ترکے میں سے دو تہائی اور اگر بھائی اور بہن یعنی مرد
|