پھر مستی کی تعریف میں حضرت امام نے بڑی وسعت رکھی ہے۔ ان حالات میں نشہ کے عادی حضرات کے لئے حنفی مذہب میں بڑی گنجائش ہے۔ اس قسم کی نصوص ہدایہ مطبوعہ بمبئی ج2 ص311 طحطاوی مطبوعہ مصر جث ص1و4 در مختار مطبوعہ ہند ص306 شامی طبع مصر ج3 ص254 ملاحظہ ہوں۔ طول سے بچنے کے لئے ان کتب کی عبارات قلم انداز کی جاتی ہیں: ملک العلماء علامہ کاسانی 587ھ نے بڑی صراحت سے فرمایا: وأما الأشربة التي نتخذ من الأطعمة كالحنطة والشعير والدخن والذرة والعسل والتين والسكر ونحوها فلا يجب الحد بشربها لأن شربها حلال عندهما وعند محمد وإن كان حولها لكن هي حرمة محل الاجتهاد فلم يكن شربها جناية محضة فلا تتعلق بها عقوبة محضة ولا بالسكر منها وهو الصحيح لأن الشرب إذا لم يكن حرامها أصلا فلا عبرة بنفس السكر كشرب البفج ونحوه والله سبحانه وتعالى أعلم. اھ. البدائع والصنائع للكاساني (البدائع ج7 ص40) جو شراب گندم، جو، باجرا، چنا، شہد، انجیر اور شکر وغیرہ سے بنتی ہے اس پر کوئی حد نہیں۔ اس لئے کہ اس کا پینا شیخین کے نزدیک حلال ہے۔ امام محمد اسے حرام فرماتے ہیں لیکن یہ اجتہادی مسئلہ ہے اس کا پینا قطعی جنایت نہیں۔ اس پر سزا بھی نہیں ہوگی۔ بلکہ اکر مستی بھی آجائے تو بھی سزا نہیں ہوگی۔ یہی صحیح مذہب ہے کیونکہ جب پینا حرام نہ ہو تو پھر مستی کا کوئی اعتبار نہیں جس طرح بھنگ وغیرہ میں کوئی سزا نہیں۔ اھ بعض علماء نے فرق فرمایا تھا کہ شراب کی بعض قسموں کا پینا ہی حرام ہے بعض میں پینا حرام نہیں لیکن مستی حرام ہے۔ سزا تب ہوگی جب مستی آجائے۔ علامہ کاسانی کے نزدیک شراب کی ان اقسام کا پینا بھی درست ہے اور مستی پر کوئی سزا نہیں۔ شراب کی ان اقسام کے متعلق جواز یا عدمِ جواز کے وجوہ سے بحث نہیں۔ یہ مباحث حدیث اور فقہ کی شروح اور متون میں بھرے پڑے ہیں۔ گزارش صرف اس قدر ہے کہ احناف کے ہاں مشروبات میں بڑی لچک ہے۔ اب کوئی اس لئے حنفیت اختیار کرے کہ اس میں شراب اور منشیات کے متعلق کافی لچک ہے |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |