Maktaba Wahhabi

204 - 236
عام مشائخ حنفیہ شافعی امام کی اقتداء جائز سمجھتے ہیں جب وہ اختلاف کے مقامات میں احتیاط کرے (ورنہ نہیں)احتیاط سے مراد ہے کہ قصد، سنگی اور قے اور نکسیر وغیرہ کے بعد وضو کرےاور (شامی)علامہ خیر الدین آملی فرماتے ہیں:۔ الذی یمیل الیه خاطری القول بعدم الکواهة اذا لم یتحقق منه مفسدة(ا ھ) میرا ولی رحجان یہ ہے کہ اگر شافعی امام سے کوئی مفسدہ ظاہر نہ ہو تو اس کی اقتداء درست ہے۔ علامہ بیری اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں کہ شافعی امام کی اقتداء سے اکیلے پڑھنا افضل ہے کیونکہ وہ نماز میں ایسے کام کرے گا جن سے نماز لوٹانا یا ضروری ہو گا یا مستحب ہو گا۔ خیر الدین آملی شافعی سے منقول ہے کہ اگر اپنا ہم مذہب مل جائے تو پھر دوسرے کی اقتداء مکروہ ہے البتہ اکیلے پڑھنے سے اقتداء کرنا افضل ہے۔ یہی فتویٰ رملی کبیر استوی اور سبکی سے بھی منقول ہے۔ شیخ خیر الدین فرماتے ہیں:۔ والحاصل ان عندهم فی ذالک اختلافا وکل ما کان لنالهم علة فی الاقتداء بنا صحة فساد افضلیة کان لنا مثله علیهم اھ (شامی ص ۵۸۸ج) حاصل یہ ہے کہ شافعی ہماری اقتداء کے متعلق صحۃ فساد یا افضلیۃ کے متلق جو راہ اختیار کریں ہم بھی وہی کہیں گے۔ مندرجہ ارشادات سے ظاہر ہے کہ دین کی بجائے حضرات فقہائے کرام کی باہمی رقابت کار فرما ہے۔ اس کے بعد علامہ شامی نے ایسے مقامات کا ذکر فرمایا ہے جہاں مخالف اور موافق حضرات کی متعدد جماعتیں ہوتی ہوں۔ بعض نے فرمایا اگر پہلی نماز شوافع کی ہو تو اس میں شامل ہو جانا چاہیے۔ یہی افضل ہے لیکن علامہ ابراہیم بیری فرماتے ہیں اگر اپنے مذہب کی جماعت نہ ملے تو اکیلے پڑھنا افضل ہے شافعی کی اقتداء نہ کرے۔ علامہ سندھی رحمہ اللہ امام ابن الہام کے شاگرد ہیں کہ شافعی اگر رعایت بھی کرے تو بھی بہتر یہ ہے کہ اکیلا پڑھے اور اقتداء نہ کرے۔ اس کے بعد علامہ قاری کی رائے
Flag Counter