Maktaba Wahhabi

226 - 336
تم میں ہمیشہ کے لیے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی ، لیکن حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لیے استغفار ضرور کروں گا ، اور تمہارے لیے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ نیز فرمایا: (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ (1) لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (2) وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (3) وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ (4) وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (5) لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ )(الکافرون:۱۔ ۶) ’’ آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو! نہ میں عبادت کرتا ہوں اس چیز کی جس کی تم عبادت کرتے ہو ، نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو ، اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارے دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔ ‘‘ یہ ارشاد ان کے دین سے براء ت کااظہار کر رہا ہے نہ کہ رضا مندی ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا: (وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ )(یونس: ۴۱) ’’ اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو آپ کہہ دیجیے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں۔ ‘‘ جس کا گمان یہ ہو کہ اس بات سے کفار کے مذہب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی ظاہر ہوتی ہے وہ سخت جھوٹا اور حد سے زیادہ کافر ہے ، مثلاً ’’وقضٰی ربک‘‘ میں ’’قضٰی‘‘ ’’قدر‘‘ کے معنی میں لیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ جس چیز کا فیصلہ کر دے وہ ضرور واقع ہوتی ہے ،
Flag Counter