Maktaba Wahhabi

312 - 336
’’اور یہ بات حروف کے ظاہر اور کلمات و عبارات کے تقاضوں سے ہٹ کر قرآن کی باطنی تفسیر کرنے کی خطرناکی کوواضح کرتی ہے اور بتلاتی ہے کہ اس قسم کی تفسیریں کس طرح دین کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے پر منتج ہو سکتی ہیں۔ یہ بعینہٖ وہی عمل ہے جسے خوارج ، اثنا عشری اور بابی فرقے قرآن مجید کو اپنے اغراض کے سانچے میں ڈھالنے او رایک دوسرے کا توڑ کرنے کے لیے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔‘‘ پھر ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں: ’’اور یہ بات ہمیں تفسیر کے سلسلے میں ایک خاص موقف تک لے جاتی ہے جس کا التزام ضروری ہے او ر وہ ہے عبارت سے حرف بحرف جڑے رہنا اور الفاظ کے ظاہر معنی سے چپکے رہنا۔ یعنی ہم کسی باطنی تفسیر کی طرف خود قرآنی الفاظ کے الہام و اشارہ کے بغیر منتقل نہ ہوں، اور ظاہراً و باطناً بہر صورت تفسیر، الفاظ کے ظاہری مفہوم سے نہ تو ٹکراتی ہو او ر نہ اس کی نفی کرتی ہو۔‘‘ (المحاولہ، ص: ۱۲۲،۱۲۳) یہ عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر موصوف صاحب نے باطنی تفسیر کی خطرناکی کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے اس سب کے باوجود خود اپنے لیے اس کا دروازہ کھول رکھا ہے تاکہ اپنی آرزو کے مطابق جو کچھ کہنا چاہیں کہہ سکیں۔ چنانچہ موصوف نے جنت اور جہنم کو حقیقی او ر محسوس شے کے بجائے معنوی عذاب اور نعمت قرار دیا ہے او ر فرمایا کہ مجھے شہد ناپسند ہے۔ او ر جب سے میں نے سنا ہے کہ جنت میں شہد کی نہریں ہوں گی ، میری طبیعت کو انقباض ہو گیا ہے ۔ اسی طرح موصوف نے باشندگانِ چین کو یاجوج ماجوج قرار دیا ہے اور حدیث میں جس دجال کا ذکر ہے اس سے مراد موجودہ سائنس قرار دی ہے۔ کیونکہ یہ سائنس ایک آنکھ سے صرف دنیا کی طرف دیکھتی ہے ، اس طرح عورتوں کے لیے تیراکی کے لباس کو اللہ کے خلق میں تفکر کا تقاضا اور ضرورت کا لباس قرار دیا ہے۔ یہ ان کی تاویلات کا مشتے نمونہ از خروارے ہے۔
Flag Counter