Maktaba Wahhabi

118 - 222
اشرف علی تھانوی شمائم ص ۶۱ میں فرماتے ہیں عارف کی نظر پہلے ظاہر پر پڑتی ہے پھر مظاہر پر پڑتی ہے اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے سورج،چاند،ستاروں کو کہا ’’ ھذا ربی‘‘یعنی جناب ابراہیم خلیل اللہ کی ان چیزوں پر نظر پڑی تو اول ان کو رب سمجھ بیٹھے جب وہ غروب ہوگئے تو سمجھ گئے کہ یہ رب کے مظاہر تھے حقیقی طور پر رب نہیں تھے(نعوذباللہ من الجھل والکفر)ابراہیم علیہ السلام کے کلام میں اس صوفی کے مذکور بیان کی کھلی تردید موجود ہے جب یہ ایک ایک کرکے سب غروب ہوگئے تو خلیل اللہ نے کہا میں غروب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا اگر یہ رب تعالیٰ کے مظاہر ہوتے تو ابراہیم ؑیہ الفاظ نہ کہتے کیونکہ رب تعالیٰ کی صفات جن کو صوفی مظاہر کہتا ہے اس کی ذات کی طرح قائم و دائم ہیں ان پر فنا نہیں۔یہ سورج،چاند،ستارے طلوع ہوئے پھر غروب ہوگئے یہ ان کے فانی ہونے کی علامت ہے۔لہذا یہ رب تعالیٰ کے مظاہر اور صفات نہ ہوئے۔ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہی بات بتائی کہ فانی چیز کبھی ر ب تعالیٰ کی صفات نہیں ہوسکتی۔اور ابراہیمؑ نے ان کو اول رب استفہام انکاری کے معنی میں کہا یعنی کیا یہ میرے رب ہیں۔ زادالمسیر فی علم التفسیر ج۳ ص ۷۴ میں امام ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ ابراہیم کے ان چیزوں کے رب کہنے کا مقصد ان کو ایک طریقے سے سمجھانا تھا۔اس پر انہوں نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک عقلمند شخص کسی قوم کے پاس ٹھہرا یہ قوم بت کی عبادت کرتی تھی اس قوم پر دشمن نے حملہ کیا انھوں نے اس سے مشورہ کیا تو اس نے کہا اپنے اس معبود(بت)سے مدد طلب کرتے ہیں اس کے پاس جمع ہوئے اس کو پکارتے رہے اس نے
Flag Counter