Maktaba Wahhabi

188 - 222
مغرب کی نماز پڑھتے ہوئے اپنے بیٹے امیر علی کو پکارنے لگے امیر علی امیر علی میرے خاوند نے آج مجھ کو دکھا یا ہے حاجی صاحب کو مسجد میں بند کرکے قفل لگا دیا گیا ہے اور مولوی رشید صاحب کو کتاب دے کر درس کے لئے کہہ دیا ہے(امداد المشتاق ص ۱۲۸)۔ جناب الیاس علیہ السلام کی قوم ایک بت کی عبادت کرتی تھی جس کا نام انہوں نے بعل رکھا ہوا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر سورہ صافات آیت ۱۲۵ میں کیا ہے۔﴿اتدعون بعلا و تذرون احسن الخالقین﴾ کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور سب سے بہتر پیدا کرنے والے کو بھول جاتے ہو جو اللہ ہے اور عربی زبان میں بعل خاوند کو کہتے ہیں سورہ ھود آیت ۷۲میں ہے ﴿یا ویلتیٰ ألد وأنا عجوز وھذا بعلی شیخا ان ہذا لشئی عجیب﴾ ہائے افسوس کیا میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بوڑھی ہوں اور میرا خاوند بڑی عمر کا ہے یہ ابراہیم علیہ اسلام کی بیوی سارہ بی بی کے الفاظ ہیں یہاں بعل خاوندکے معنی میں ہے اور سورہ بقرہ آیت ۲۲۸ میں ہے ﴿وبعولتہن احق بردہن﴾ اور ان کے خاوند ان کو واپس لیجانے کے لئے زیادہ حقدار ہیں۔ تفسیر فتح البیان میں ہے خاوند کو بعل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کے اوپر ہوتا ہے اور اسی معنی کی وجہ سے مشرکین رب تعالیٰ کو بعل کہتے تھے اور اسی مناسبت سے بت کو رب سمجھ کر اس کو بعل کہتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ صافات میں فرمایا ﴿اتدعون بعلا وتذرون احسن الخالقین۔اللّٰه ربکم ورب آبائکم الاولین﴾اور فیروزاللغات ص ۵۸۴ میں ہے خاوند کا معنی آقا مالک بھی ہوتا ہے اور یہ لفظ خداوند کامخفف بھی استعمال ہوتا ہے یعنی
Flag Counter