اسی طرح مشترک ہیں جیسے انسان اسم انسان میں مشترک ہیں اور حیوانات اسم حیوان میں مشترک ہیں ، لیکن یہ مشترک کلی صرف ذہنی اعتبار سے مشترک کلی ہے ، ورنہ جوحیوانیت انسان کے نام کے ساتھ قائم ہے وہ حیوانیت نہیں ہے جوگھوڑے کے ساتھ قائم ہے ، آسمانوں کاوجود بعینہ انسان کاوجود نہیں ہے ، پس خالق جل جلالہ کاوجود اپنی مخلوقات کے وجود سے مختلف ہے۔
حقیقت میں انہوں نے وہی بات کہی ہے جوفرعون کاعقیدہ تھا ، اس نے صانع کومعطل قرار دیاتھا ، وہ موجودومشہود کامنکر نہیں تھا ، بلکہ اس کادعویٰ تھا کہ وہ موجود بنفسہ ہے ، اس کا کوئی بنانے والا نہیں ہے ، مذکورہ صوفیاء نے اس باب میں تو فرعون سے موافقت کی مگر آگے بڑھ کر انھوں نے فرعون کو اﷲتسلیم کرلیا ، لہٰذاوہ اس سے بھی زیادہ گمراہ ٹھہرے ، گوفرعون کاتصور ان سے زیادہ فاسدتھا ، یہی وجہ ہے کہ ان ملحدصوفیاء نے اصنام پرستوں کو الہ واحد کاپرستار قراردیااور یہ کہاکہ فرعون گوشرعی دستورکے مطابق ظالم تھا ، مگرچونکہ صاحب شمشیرتھا ، منصب حکومت پرفائزتھا ، اس لیے اس نے ’’اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ‘‘ کہا ، یعنی کسی بھی نسبت سے اگرارباب کاوجود ہے تومیں سب سے بڑارب ہوں ، کیونکہ ظاہرمیں مجھے منصبِ حکومت حاصل ہے۔
ان صوفیاء کاکہناہے کہ فرعون نے جوکچھ کہا جب اس کی صداقت کاعلم ساحروں کوہوگیا توانہوں نے یوں کہا:
)فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا( (طہ: ۷۲)
’’توجوچاہتاہے کرگزر ، تواسی دنیوی زندگی پرحکم چلاسکتاہے۔ ‘‘
اس طرح فرعون کاقول ’’اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ‘‘ صحیح ثابت ہوا ، فرعون عین حق تھا۔
اس کے بعد یہ حضرات یوم آخرت کی حقیقت کے منکربھی ہوئے ، چنانچہ کہتے ہیں کہ جہنمی بھی اہل جنت کی طرح نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوں گے ، اﷲ ، یوم آخرت ، اﷲ کے فرشتوں ، کتابوں اور پیغمبروں کاانکارکرنے کے باوجود یہ لوگ دعویدارہیں کہ وہ خاصۂ خاصان
|