Maktaba Wahhabi

304 - 336
کو دیکھنے میں غرق ہوں اور جنید نے کہا کہ جو اسباب دنیا کے اندر قید ہوں، اور ’’ تم ان کا فدیہ دیتے ہو‘‘ کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ انہیں دُنیا سے قطع تعلقی کی طرف لے جاتا ہو۔ میں کہتا ہوں کہ یہ آیت بطورِ انکار کے آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے طرزِ عمل پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب تم انہیں قید کرتے ہو تو فدیہ دیتے ہو اور جب ان سے جنگ کرتے ہو تو قتل کرتے ہو (حالانکہ یہ بات تم پر حرام کی گئی ہے) مگر انہوں( اہل تصوف) نے اس کی تفسیر، انکار کی بجائے مدح کے طور پر کی ہے۔ محمد بن علی نے {یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ} کا معنی بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اپنی توبہ سے توبہ کرتے ہیں(یعنی توبہ توڑ دیتے ہیں) اور نوری نے {یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ} ’’اللہ روزی تنگ کرتا اور کشادہ کرتا ہے۔‘‘ کی تفسیر یوں کی ہے کہ وہ اپنے ذریعے سے قبض کرتا ہے اور اپنے لیے پھیلاتا ہے۔ اور {مَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًا} کی تفسیر یہ کی ہے کہ حرم میں داخل ہونے والا اپنے نفس کے خیالات اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ یہ نہایت گندی تفسیر ہے کیونکہ آیت کا لفظ خبر کا لفظ ہے لیکن معنی امر کا ہے اور مفہوم یہ ہے کہ جو حرم میں داخل ہو جائے اسے امن دے دو۔ لیکن ان حضرات نے اس کی تفسیر خبر سے کی ہے۔ پھر جو تفسیر کی ہے وہ صحیح بھی نہیں۔ کیونکہ کتنے ہی لوگ جو حرم میں داخل ہوتے ہیں لیکن نفس کے خیالات اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ نہیں رہتے۔ {اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ الْاِثْمِ مَا تَنْہَوْنَ عَنْہُ} ’’ یعنی اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کر لو گے تو ہم معمولی گناہوں کو بخش دیں گے … الخ‘‘ اس کی تفسیر میں ابو تراب نے کہا کہ کبائر سے مراد فاسد دعوے ہیں۔ {وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی} ’’قرابت دار پڑوسی‘‘ کی تفسیر میں سہل نے کہا کہ اس سے مراد دل ہے اور {اَلْجَارِ الْجُنُبِ} ’’پہلو کا ساتھی‘‘ نفس ہے۔ ابن السبیل ’’راستہ چلنے والا مسافر‘‘ اعضاء و جوارح ہیں۔ {وَہَمَّ بِہَا} ’’یوسف نے اس کا قصد کیا۔‘‘ اس کی تفسیر میں ابوبکر وراق نے کہا کہ
Flag Counter