Maktaba Wahhabi

13 - 222
ہے۔اسی طرح اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام نہیں کیا کیونکہ اس کے خیال و عقیدے میں اللہ تعالیٰ کے کلام کے حروف ہیں نہ الفاظ اور اس کے کلام کی آواز بھی نہیں۔اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے جوآواز سنی تھی وہ اللہ تعالیٰ کی آواز نہیں تھی،وہ مصنوعی اور مخلوق کی آواز تھی،اس جرم میں اس امیر نے جعد کو قتل کی سزا دی کیونکہ یہ عقیدہ کفر و الحاد کا ہے۔ جب تک اسلامی حکمراں اسلامی حدود کے نفاذ پر عمل کرتے رہے اس وقت تک ملحدین و مرتدین کے ساتھ یہی سلوک رہا،کسی کو اسلامی سزا سے بچ جانے کا موقع نہیں ملا۔مگر جب اسلامی حکمرانوں نے اسلامی حدود کے نفاذ کو معطل کردیا تو ملحدین نے پھر اپنا کام ا علانیہ طور پر شروع کردیا انہوں نے اعلانیہ طور پر اپنے آپ کو خدا نہیں کہا لیکن ایسی اصطلاحیں جاری کیں جن کے توسط سے انہوں نے ربوبیت کا اظہار کیا جیسا کہ ابویزید بسطامی کا قول:لیس فی جبتی الااللّٰه یعنی میرے جبے کے اندر خدا ہی ہے اور انہیں ملحدین کی روش پر چلتے ہوئے متاخرین صوفیاء نے لفظ مظہر ایجاد کرلیا۔لفظ مظہر دیو بندیوں و بریلویوں کے مشترک پیرومرشد حاجی امداداللہ کے کلام میں بہت ملے گااور ان کے خلیفہ و جانشین شیخ اشرف علی تھانوی کی کتب اس سے بھری پڑی ہیں۔لفظ مظہر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز میں ظہور فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے روپ میں دنیا کے سامنے آتا رہتا ہے۔اس گمراہ عقیدے کی وضاحت ہم نے اس کتاب میں کی ہے۔ان کے عقیدے کے مطابق دنیا کی تمام مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی ایک ایک صفت ہے مگر انسان اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا
Flag Counter