کو کھلا کر آؤ بیوی نے کہا کہ دریا گہرا ہے میں اس کو کس طرح پار کرکے دوسرے کنارے جاؤں گی فرمایا جب دریا میں قدم رکھنا تو میرا نام لے کر کہنااگر میرے اور میرے شوہر کے درمیان وہ تعلق ہوا ہو جو زن و شوہر میں ہوا کرتا ہے تو مجھے ڈبودے ورنہ میں پار ہوجاؤں اس نے یہی کہنا تھا کہ دریا پایاب ہو گیا اور گھٹنوں گھٹنوں پانی میں وہ دریا کے پار ہوگئیں انہوں نے کھانے کا خوان اس بزرگ کو پیش کیا انہوں نے اس کو اکیلے تناول فرمایا جب واپس ہونے کا وقت آیا تو ان کو فکر ہوئی کہ آنے کا وظیفہ تو مجھے معلوم ہوگیا ا ب جاتے وقت کیاکہوں اس بزرگ نے اس کی پریشانی دیکھی تو اس سے دریافت کیا انھوں نے کہا میں دریاسے کس طرح پارہوں انہوں نے فرمایا کہ اب جائے تو میرا نام لے کر کہنا کہ اس نے ایک لقمہ کھایا ہوتو میں ڈوب جاؤ ں ورنہ پار ہوجاؤں چنانچہ وہ پار ہو گئیں اب انہوں نے شوہر سے پوچھا کہ آپ نے صاحب اولاد ہوکر خلاف واقعہ بات کیوں کہی اور اس بزرگ نے آنکھوں کے سامنے پورا کھانا تناول کرنے کے باوجود ایک لقمہ بھی کھانے سے انکار کیوں کیا تو اس بزرگ نے جواب دیا کہ میں نے جو کچھ کیا امر الہی سے کیا اپنے نفس کی خواہش سے نہیں کیا اور انہوں نے جوکچھ کیا وہ امر الہی سے کیا نفس کا اس میں کوئی حصہ نہیں تھا۔
اس قسم کی حکایات اگر کوئی بدعتی و مشرک بیان کرتا تو تعجب نہ ہوتا لیکن دیو بندی مذہب اور تبلیغی جماعت کے بڑے شیخ نے بیان کیا ہے ان واقعات کی تردید بھی انہوں نے نہیں کی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان واقعات کو سچا سمجھتے تھے اور یہ مجذوبین لوگ جن کے حکم سے دریاؤں کے پانی آناً فانا ًرک جاتے تھے دیوبندی و تبلیغی شیخ کے نزدیک صاحب خدمت
|