بہت کم آدمی ہیں جن کو یہ معلوم ہوگا کہ دین کے کیا معنی ہیں اور شریعت کا کیا مطلب ہے بے پڑھے لکھے لوگ توخیر مجبور ہیں اچھے خاصے تعلیم یافتہ آدمی بلکہ بہت سے مولوی بھی یہ نہیں جانتے کہ ان دونوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب کیا ہے اور ان دونوں میں فرق کیا ہے ناواقفیت کی وجہ سے اکثر دین کو شریعت سے اور شریعت کو دین سے گڈمڈکردیا جاتا ہے او ر اس سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں کچھ تفصیل کے بعد مولانا نے دین کا معنی ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہرانسان کے پاس اپنے احکام نہیں بھیجتا ہے اس لئے جو شخص اللہ کو حاکم مانتا ہو وہ اس کی فرمانبرداری اس طرح کرسکتا ہے کہ اس کے رسولوں کی فرمانبرداری کرے اور رسولوں کے ذریعہ سے جو احکام آئیں ان کی اطاعت کرے اسی کا نام دین ہے اس کے بعد مولانا فرماتے ہیں اب بتاؤ نگا کہ شریعت کیا ہے۔شریعت کا معنی طریقے اور راستے کے ہیں۔کچھ سطروں کے بعد مولانا اصل مقصد کی طرف آتے ہوئے فرمایا:لیکن فرق یہ ہے کہ دین ہمیشہ سے ایک تھا ایک ہی رہا اور اب بھی ایک ہی ہے مگر شریعتیں بہت سی آئیں بہت سی منسوخ ہوئیں بہت سی بدلی گئیں اور کبھی ان کے بدلنے سے دین نہیں بدلا حضرت نوح کا دین بھی وہی تھا جو حضرت ابراہیم کا تھا حضرت موسیٰٰ و عیسیٰٰ کا تھا۔
اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے مگر شریعتیں ان سب کی کچھ نہ کچھ مختلف رہی ہیں۔اس کے بعد مولانا زیر عنوان فقہی مسلکوں کے فرق کی نوعیت میں فرماتے ہیں یہ تو پچھلے انبیاء کے ماننے والوں کے لئے رہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو تو ان پر اس مثال کا دوسرا حصہ صادق آتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم کو بھیجی ہے اس کو خدا کی شریعت ماننے والے سب کے
|