Maktaba Wahhabi

180 - 222
تعالیٰ نے قرآن کریم میں سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کے بارے میں فرمایا۔﴿الم یرو انہ لایکلمھم ولا یھدیہم سبیلا﴾(الاعراف:۱۴۸)کیا نہیں دیکھا انہوں نے کہ وہ بچھڑا نہ بات کرتا ہے ان سے اور نہ ان کو سیدھی راہ کی راہ نمائی کرتا ہے۔اس آیت میں اس بچھڑے کے نہ بولنے کو اس کے باطل معبود ہونے پر استدلال کیا گیا جس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ جونہ بول سکتا ہو معبود نہیں ہوسکتا اور اس قاعدے سے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے نہ الفاظ ہیں نہ آواز ہے ان لوگوں کا مذہب قوی ترہوجاتا ہے جو قرآن کریم کے مخلوق ہونے کے قائل ہیں یہ قول بدعت فی الاسلام ہے اس قول کی تشہیر مشہور خلیفہ مامون الرشید کے زمانے میں ہوئی اس نے اپنی پوری حکومتی قوت سے اس عقیدے کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی لیکن امام احمد رحمہ اللہ اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے امام احمد کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی اور مامون کا پروگرام ناکام ہوگیا۔الحمد للّٰه علی ذالک۔چاروں فقہی مذاہب میں سے امام احمد کے پیروکار قرآن کے الفاظ حروف کو ان کے معنی سمیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اس لئے المسایرہ ص ۷۳ میں اس قول کو بدعت اور حنبلیوں کو مبتد عین کہا ہے۔اس کے الفاظ ہیں۔ثم المخالف فی صفۃ الکلام فرق منہم بدعۃ الحنابلۃ قالواکلامہ تعالیٰ حروف واصوات۔یعنی ہمارے قول کے مخالف قرآن کریم کے بارے میں دوسرے فرقوں میں سے بدعتی حنبلی ہیں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے کلام کے حروف بھی ہیں اور آواز بھی ہے گویا کہ مسلمان میں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے حروف والفاظ معنی سمیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں وہ
Flag Counter