Maktaba Wahhabi

683 - 704
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ میں لکھا ہے: یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ عائشہ کے قبلہ کی جانب والے مغربی زاویہ میں دفن کیے گئے جو مسجد کے مشرقی احاطہ میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ دفن کیے گئے، اور ابو بکر کے بعد عمر … رضی اللہ عنھما … [1] اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں اتارا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو زمین سے ایک بالشت اونچا کیا گیا، اور بلال رضی اللہ عنہ نے آپؐ کی قبر پر پانی چھڑکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پہلے اپنی امت کو قرآن وسنت سے تیار روشن وتابناک شاہراہ پر لگا دیا تھا، اُن میں سرفہرست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے جن کے ذریعہ اللہ نے دینِ اسلام کو عزت بخشی، انہوں نے ملکوں کو فتح کیا اور پورے عالم کو اسلام کے آفتابِ عالمتاب کی روشنی سے بھر دیا، تاکہ اللہ کا دین تمام کو پہنچے، اور اس کا وعدہ پورا ہو۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی مصیبت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے لیے ہر مصیبت ہلکی ہوگئی، اور جب تک زندہ رہے آپ کے فراق میں روتے رہے، وفات کے فوراً بعد تمام اہلِ مدینہ جمع ہوگئے، مسجدِ نبوی اور مدینہ کی گلیاں رونے اور بِلکنے کی آوازوں سے بھر گئیں، اُن کی نگاہوں میں دنیا تاریک ہوگئی، ہر دور وقریب بدل گیا۔ بلال رضی اللہ عنہ نے پکارا: ہائے! ہمارے نبی، فاطمہ رضی اللہ عنہ نے پکارا: ہائے! میرے ابّا، حسن رضی اللہ عنہ وحسین رضی اللہ عنہ نے پکارا: ہائے! ہمارے نانا، اور تمام مسلمانوں نے پکارا: ہائے! ہمارے غم واَلم کے پہاڑ۔ اس مصیبتِ عظمیٰ کے سبب ہر مکان وزمان میں مسلمانوں کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہم سب کے لیے تازیانۂ عبرت ہے۔ کسی مُحبِّ رسول شاعر نے کتنی اچھی بات کہی ہے من بعد موت المصطفی ہل لا مریٔ فـی الدہر یومًا للبقاء سبیل وہو النبي المصطفی والمجتبی ونبيُّ حقٍّ للوری ورسول صلّی علیہ اللّٰہ جلّ جلالہ ما حَنّ مشتاق وسار دلیل ’’ کیا حبیبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی زمانہ میں کوئی شخص ہمیشہ باقی رہنے کی آس لگا سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو نبیِ مصطفی ومجتبیٰ تھے، آپ مخلوق کے لیے نبیٔ برحق اور رسول تھے۔ اللہ جل ّجلالہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا ہے جب تک کوئی مشتاق اپنے حبیب کو یاد کرتا رہے گا، اور کوئی رہنما چلتا رہے گا۔‘‘ ****
Flag Counter