Maktaba Wahhabi

117 - 326
ہے رحم میں بچے کو بنادیتا ہے خواہ مذکر بنائے یا مونث اور جس کیفیت کا حامل چاہتا ہے بنادیتا ہے، خواہ ناقص بنائے یا کامل‘‘ حسین اور خوبصورت بنائے یا بدصورت‘ اسی طرح جنین کے دوسرے حالات اس کے ہاتھ میں ہیں کسی اور کے ہاتھ میں نہیں، نہ ان امور میں ا سکا کوئی شریک ہے۔ یہ دعویٰ غلط ہے کہ خاوند یا کوئی ڈاکٹر فسلفی جنین کی قسم متعین کرسکتا ہے۔ خاوند تو صرف یہی کرسکتا ہے کہ اس وقت مباشرت کرے جب حمل کی امید زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد اللہ کی تقدیر کے مطابق کبھی اس کی خواہش پوری ہوجاتی ہے کبھی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ کا سبب ناقص ہونا بھی ہوسکتی ہے۔ کوئی مانع بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاًمرض یا بانجھ پن یا اللہ کی طرف سے بندے کی آزمائش کے طور پر بھی اولاد سے محرومی ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسباب بذات خود اثر نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ تقدیر کے تحت اسباب پر مسبب مترتب ہوتے ہیں۔ بارآوری ایک تکوینی امر ہے۔ انسان کے بس میں صرف اتنا ہے کہ اللہ کے حکم سے وظیفۂ زوجیت ادا کرے۔ اس کے بعد اس سے جین کو وجود میں لانا، اس کو مختلف حالات میں لے جانا اور ایسی تدبیر کرنا کہ اس پر مسبات مرتب ہوجائیں یہ صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کا کام ہے۔ جو شخص ان لوگوں کے حالات اور ان کے اقوال وافعال پر غو رکرتا ہے اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ مبالغہ آمیزدعوے کرتے اور لاعلمی کی وجہ سے غلط بیانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور جدید علوم کے متعلق غلو کا شکار ہوتے اور اسباب پر اعتماد کرنے میں جائز حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں اور جو شخص ان چیزوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ کونسی چیز اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص کررکھی ہے اور کس چیز میں اس کی تقدیر کے مطابق بندے کا بھی کردار ہے۔[1] ٭٭٭
Flag Counter