Maktaba Wahhabi

214 - 326
احمد تیجانی کے متعلق بات کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’آپ اکثر اس مسئلہ کو بیان فرماتے اور اس کی تائید کرتے ہیں اور اپنے کلام اور حال سے اس کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں اور اپنے حال پر بطور تمثیل یہ شعر پڑھتے ہیں کہ میرے ساتھ کمال کا بدر ہے جدھر بھی وہ جائے میرا دل مائل ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کے سوا کو محو کردیا ہے، اس لئے وہ اللہ کے ساتھ غیر کا مشاہدہ نہیں کرتے اور ماسوا کو نفع نقصان پہنچانے والا نہیں سمجھتے، بلکہ وہ دیکھتے ہیں کہ فعل اللہ کی طرف سے ہے اور وہی تصرف کرنے والا ہے اور وہ اپنے فعل سے اس پر دلالت کرتے اور پہچان کرواتے اور یہ کہ اس کے تمام افعال حکمت پر مبنی ہیں اور رحمت نے ان کو گھیر رکھا ہے۔ وہ مخلوق کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ وہ ہاتھ میں مسخر کئے ہوئے برتن ہیں،وہ انسان کے اپنی ذات کے مشاہدہ کو بھی دوئی سمجھتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں: جب میں کہتا ہوں کہ میں نے تو کوئی گناہ نہیں کیا تو میرا دل کہتا ہے ’’تیرا و جود خود ایک گناہ ہے جس کے برابر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ ’’اس معنی پر آپ کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ آپ (تیجانی) کے افعال‘ اقوال‘ تصریح اور کنایہ سب کے سب فنا فی اللہ اور ماسوی سے غیبت کے گرد گھومتے تھے۔‘‘ آگے چل کر لکھتا ہے: ’’آں جناب دلوں کو زندہ کرتے اور عیبوں سے پاک کردیتے تھے۔ ایک نظر میں غنی کردیتے اور حضور نصیب کردیتے تھے، جب توجہ فرماتے تو (روحانی کمالا میں) غنی کردیتے اور ذخیرہ جمع فرمالیتے اور مقصود تک پہنچا دیتے تھے، دلوں کے احوال میں علام الغیوب کی اجازت سے تصرف فرماتے تھے…‘‘ شیخ کے اپنی ذات کے بارے میں غلو اور ان کے مریدوں کے ان کے بارے میں غلو کا یہ ایک اور رنگ ہے۔ جس سے وہ فنا اور وحدت ا لوجود تک پہنچ گئے۔ حقیقت میں یہ دین کے معاملے میں بے راہ روی‘ اللہ پر بہتان اور واضح کفر ہے۔ اس کے بعد مصنف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پیر کو علم غیب حاصل ہے۔ چنانچہ کہتا ہے ’’حضرت رحمہ اللہ کے کمال کا ایک پہلو آپ کی بصیرت ربانی اور فراست نورانی کا نفوذ ہے، جس کا اظہار ساتھیوں کے احوال کا علم ہوجانے، دل کی باتیں جاننے، غیبی امور کی خبریں دینے اور حاجات کے نتائج کو جاننے اور ان کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے فوائد‘ آفات اور واقع ہونے والے دیگر امور کا علم سے ہوتاہے۔ آپ ساتھیوں کے دلوں کے حالات اور ان کے احوال کی تبدیلی‘ ان کے اغراض کا تغیر تبدل‘ ان کے متوجہ ہونے اور پیچھے ہٹ جانے کی حالت اور ان کے تمام علل اور امراض کو جانتے تھے اور ان کی تمام ظاہری وباطنی کیفیات اور ان میں کمی بیشی سے واقف تھے۔ کبھی یہ چیزیں بیان بھی کردیتے تھے اور کبھی ان پر شفقت فرماتے ہوئے انہیں امتحان میں ڈالنے کی غرض سے اخفا سے کام لیتے تھے۔ اس قسم کے متعدد واقعات مختلف افراد کے ساتھ متعدد بار پیش آئے۔‘‘ اس کے بعد مصنف بیان کرتا ہے کہ اس کے شیخ کو اسم اعظم کس طرح حاصل ہوا اور اس کا کتنا ثواب ہے۔ چنانچہ کہتا ہے: ’’اسم اعظم کے ثواب کے بارے میں حضرت رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’مجھے اللہ کے عظیم اسم اعظم کے کئی صیغے دئے گئے ہیں اور مجھے اس کی تراکیب میں جو کچھ ہے اس کے استخراج کا طریقہ سکھا یا ہے۔ حضرت صاحب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اس میں کس قدر بے حدو حساب اجرو ثواب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کو اس (اسم اعظم) کے عظیم خواص‘ اس کے ساتھ دعا کرنے کا طریقہ اور اس کے سلوک کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ جہاں تک ہمیں علم ہے جس مقام تک حضرت صاحب رحمہ اللہ پہنچے ہیں کوئی اور نہیں پہنچ سکا۔ کیونکہ حضرت نے فرمایا: ’’مجھے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اسم اعظم عطا فرمایا جو سید ناعلی کرم اللہ وجہ کے ساتھ خاص تھا۔ اس سے پہلے مجھے وہ اسم اعظم بھی عطا فرمایا جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے لئے مخصوص تھا۔‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ’’سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’سیدنا علی کا یہ مخصوص اسم صرف اسی کو دیا جاتا ہے جس کے
Flag Counter