Maktaba Wahhabi

76 - 326
نبی مبعوث نہیں ہوا اور عیسیٰ علیہ السلام (نعوذباللہ) اللہ کے بیٹے ہیں۔ میری والدہ نے اس کی تردید کی اور بحیراراہب کا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کم سن تھے اور یہ ممکن نہیں کہ بحیرا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کتاب سکھائی اور اس طرح اس شبہ کی تردید کی‘ جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کی ہے۔ جب مجھے اس بات چیت کا علم ہواتو میں نے کہا: ’’یہ عورت اگرچہ ذمی ہے چونکہ اس نے صاف طو رپر اللہ تعالیٰ کی توہین کی ہے…کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینا اللہ کو گالی بکنے کے مترادف ہے… اور چونکہ اس نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی نہ ہونے کا ذکر ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) جھوٹا قرار دیا ہے، اس لئے اسے لازماً سزا ملنی چاہئے۔ چونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس کے حالات سے آپ واقف ہیں، اس لئے میں اسے گھر سے نکالنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکا۔ لیکن اس سے پہلے میں نے اس سے بحث کی۔ میں نے اس ’’فارقلیط‘‘[1] کے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا: مجھے معلو م نہیں۔ پھر میں نے انجیلوں کے بیانات میں تناقص کے بارے میں بات کی اور عیسیٰ علیہ السلام کے اس عقیدے کے متعلق بتایا کہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کے بارے میں خود متفق نہیں کہ وہ اللہ تھے یا وہ اللہ کے بیٹے تھے،اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے کہا کہ میں ان مسائل سے ناواقف ہوں۔ پھر اس نے پرانے شبہات ذکر کئے مثلاً یہ کہ شیعہ قرآن مجید کونہیں مانتے اور قرآن مجید کی ان آیات کا ذکر کیا جن میں عیسیٰ علیہ السلام کو ’’اللہ کا کلمہ‘‘ اور ’’روح‘‘ کہا گیا ہے اور اس قسم کے شبہات پیش کئے گئے جن کی تردید امام بن حزام‘ امام بن تیمیہ اور دیگر علمائے امت ' اپنی کتابوں میں کرچکے ہیں، جب میں نے اس کی ساری باتیں سنیں تو میں نے اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔ میں نے کہا: جو کوئی اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے وہ اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘ دو دن بعد وہ پھر میری والدہ کے پاس آئی اور معذرت کی۔ جب مجھے علم ہوا تو میں نے والدہ سے کہا: اس جرم کی معذرت قبول نہیں کی جاسکتی، کیونکہ اس جرم کا تعلق میری ذات سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے اور اللہ اور اس کے رسول کے حق میں معذرت قبول کرنے کا مجھے اختیار نہیں۔ میں نے کہا:’’اگر وہ عورت دوبارہ نظر آئی تو میں اسے پھر نکال دوں گا۔‘‘ اس کے بعد پھر ایک میں گھر آیا تو وہ آئی ہوئی تھی اور مجھے معلوم ہوا کہ وہ والدہ کے لئے ’’ماؤں کے دن‘‘ کی مناسب سے تحفہ لے کرلائی ہے۔ مصر میں یہ دن منانے کی رسم علی امین نے شروع کی تھی‘ میں نے اس عورت سے کہا: ’’باہر نکل جاؤ‘‘ اگر والدہ آڑے نہ آتیں تو میں اسے زبردستی گھر سے نکال دیتا۔ لیکن والدہ اٹھ کھڑی ہوئیں تو میں نے سوچا یہ کافر عورت مسلمان کے گھر میں لڑائی ہوتے نہ دیکھے۔ اس کے بعد عورت کے خاوند نے میرے بڑے بھائی سے اسلام میں رواداری اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ کے متعلق باتیں کرنا شروع کردیں اور اس سے کہا کہ وہ میری طرف سے معذرت کرے۔ میرا بھائی ویسے تو میرے ساتھ نہیں الجھا لیکن اس نے پڑوسیوں کے حقوق کامسئلہ اٹھایا اور یہ کہ ملک میں ان کی قوت ہے اور اس طرح کے دوسرے شبہات پیش کئے میں نے کہا’’میں جناب شیخ ابن بازکو خط لکھ کر یہ سوالات دریافت کروں گا کہ: (۱) میں نے جو رویہ اختیار کیا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ (۲) جب حالات اس قسم کے ہوں تو اس طرح کے ہمسائیوں کے کیا حقوق ہوتے ہیں؟
Flag Counter