Maktaba Wahhabi

446 - 625
کے عمدہ معیار کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح وحسن درجے کی احادیث۔الا ما شاء اللہ۔پر مشتمل تفسیرِ قرآن مرتب کی ہے،جس کا نام ’’أحسن التفاسیر‘‘ ہے۔مکتبہ سلفیہ لاہور کے طبع کردہ اڈیشن(1/ 325) میں لکھا ہے کہ اس آیت میں چھونے سے مراد جماع ہے اور یہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما کا اختیار ہے،جب کہ بعض دیگر مفسّرین نے یہاں لمس سے عام چھونا مراد لیا ہے۔موصوف نے لکھا ہے کہ ہم اس تفسیر کے مقدمے میں وضاحت کر چکے ہیں کہ اگر کسی آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ و مفسّرین کی آرا میں اختلاف ہو تو ترجیح اسی کو ہوگی،جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہوگا۔یہی بات امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اس آیت کی روسے عورت کو محض چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا،کیونکہ نقضِ وضو والی رائے تفسیرِ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے خلاف اور مرجوح ہے۔ معارف القرآن: حنفی دیوبندی مکتبِ فکر کے معروف حنفی عالم مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں سورۃ النساء کی آیت(43) کی تفسیر میں اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی۔البتہ معارف و مسائل سے پہلے خلاصہ تفسیر جو انھوں نے مولانا اشرف علی تھا نوی رحمہ اللہ کی ’’بیان القرآن‘‘ سے لیا ہے،اس میں لمس سے مراد قربت(اور صحبت) ہی مذکور ہے۔معارف القرآن میں آیات کا جو تحت السطور ترجمہ ہے،جو دراصل شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمہ اللہ کا ہے،البتہ اس میں مولانا محمود الحسن المعروف شیخ الہند نے کچھ لغوی تہذیب و تجدید کی ہے،جیسا کہ خود ان کا اور مولفِ معارف القرآن کا بیان ہے،اس میں بھی لمس سے مراد قربت ہی مذکور ہے۔ان کے الفاظ میں: ’’یا پاس گئے ہو ان عورتوں کے۔‘‘ [1] ترجمہ شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ : مترجمینِ قرآن میں سے شاہ رفیع الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی ﴿اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ﴾ کا ترجمہ ’’یا صحبت کرو عورتوں سے‘‘ کیا ہے۔اس ترجمہ والے قرآنِ کریم کے حاشیے میں طہارت کی
Flag Counter