Maktaba Wahhabi

601 - 625
لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے قائلینِ وجوب کا دلیل حاصل کرنا صحیح نہیں،سوائے اس کے کہ جب یہ کہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال امت کی نسبت وجوب کے لیے ہوتے ہیں۔ہاں اگر ارشادِ نبوی: ﴿صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ ’’تم اسی طرح نماز پڑھو،جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ کے عموم سے استدلال کریں تو بات میں قوت آجا تی ہے اور خود شافعیہ نے بھی اس مسئلے کے سوا کئی امور میں اس کا اعتبار کیا ہے۔[1] امام شوکانی رحمہ اللہ فرما تے ہیں کہ ترتیب کا عدمِ وجوب ہی ظاہر ہے،کیوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا محض کوئی فعل امت کے حق میں وجوب کے لیے نہیں ہوتا۔اور((صَلَّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ﴾ والی حدیث سے استدلال بھی اعتراض سے خالی نہیں ہے۔ قائلینِ وجوب کے بعض دیگر دلائل کا جائزہ: ترتیب کے وجوب کو مزید قوی بنانے کے لیے بعض دیگر احادیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر وہ صحیح ہوتیں تو بات بن جاتی،لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں،جو قابلِ استدلال ہو۔مثلاً معجم کبیر طبرانی اور مسند احمد میں ایک حدیث ہے،جس میں حضرت ابو جمعہ حبیب بن سباع رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں: ﴿أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَامَ الْأَحْزَابِ صَلَّی الْمَغْرِبَ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: ھَلْ عَلِمَ أَحَدٌ مِنْکُمْ إِنِّيْ صَلَّیْتُ الْعَصْرَ؟ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم مَا صَلَّیْتَھَا فَأَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَقَامَ الصَّلَاۃَ فَصَلَّی الْعَصْرَ،ثُمَّ أَعَادَ الْمَغْرِبَ ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر مغرب کی نماز پڑھی،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ مغرب سے فارغ ہوگئے تو لوگوں سے پوچھا: کیا تم میں سے کوئی یہ بات جانتا ہے کہ میں نے عصر کی نماز پڑھی تھی یا نہیں؟ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ نے عصر نہیں پڑھی،تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موذن کو حکم فرمایا اور اس نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور پھر مغرب کی نماز دہرائی۔‘‘
Flag Counter