Maktaba Wahhabi

506 - 625
تھا اور جانے والا(عصر پڑھ کر) عوالی مدینہ کی طرف جاتا اور ان کے پاس پہنچ جاتا،جب کہ سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔‘‘ بخاری شریف میں یہ الفاظ بھی ہیں: ’’وَبَعْضُ الْعَوَالِيْ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ عَلٰی أَرْبَعَۃِ أَمْیَالٍ أَوْ نَحْوِہٖ‘‘[1] ’’بعض عوالی مدینہ طیبہ سے چار میل یا اس سے کم و بیش کے فاصلے پر تھیں۔ یاد رہے کہ عوالی مدینہ سے مراد وہ دیہات یا بستیاں ہیں،جو مدینے کے مضافات میں نجد کی جانب واقع تھیں،جن میں سے بعض سنن دارقطنی کی حدیث کے مطابق چھے میل پر اور مصنف عبد الرزاق کی ایک روایت کی رو سے دو میل پر تھیں،جب کہ قاضی عیاض،علامہ ابن عبد البر اور امام ابن الاثیر رحمہم اللہ نے سب سے زیادہ مسافت والی بستی کو مدینے سے آٹھ میل کہا ہے۔[2] اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی جلدی نمازِ عصرپڑھ لیا کرتے تھے۔ مختلف احادیث میں تطبیق: پچھلے اوراق میں ایک حدیث ذکر کی گئی ہے،جس کی رُوسے غروبِ آفتاب کے قریب تک تاخیر کرکے ادا کی جانے والی نماز کو ’’منافق کی نماز‘‘ قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد چند اور احادیث بھی ذکر کی گئی ہیں،جن میں منقول ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جلدی نمازِ عصر پڑھا کرتے تھے اور ان میں سے پہلے کی احادیث میں سے ایک میں نمازِ عصر کا آخری وقت کسی چیز کے سائے کا دو مثل ہو جانا مذکور ہوا ہے۔ایک دوسری روایت میں سورج کے زرد ہو جانے تک اور تیسری روایت میں سورج کا ایک کونا ڈوبنے تک اور ایک چوتھی روایت میں غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے کم از کم ایک رکعت پڑ ھ لینے تک ہے۔ ان متعدد روایات میں مذکور مختلف تین شکلوں کا امکان ہے: 1۔ پہلی یہ کہ بعض کو ناسخ اور بعض دیگر کو منسوخ مانا جائے،مگر یہ شکل صرف اس صورت میں اپنائی جاسکتی ہے،جب کہ مختلف احادیث میں مطابقت ممکن نہ ہو اور یہاں مطابقت ممکن ہے۔
Flag Counter