Maktaba Wahhabi

479 - 625
نے اپنی سنن میں امیر المو منین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا ارشاد نقل کیا ہے: ’’أَصَحُّ شَیْیٍٔ فِي الْمَوَاقِیْتِ حَدِیْثُ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘[1] ’’اوقاتِ نماز کی تعیین کے بارے میں صحیح ترین حدیث وہ ہے،جسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔‘‘ ’’قوت المغتذي‘‘ سے نقل کرتے ہوئے علامہ مبارکپوی نے ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ میں امام ابن القطان کا قول ذکر کیا ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ انصاری صحابی تھے اور مدینہ طیبہ ہی میں صحابی ہوئے تھے،جس رات نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرا و معراج کا سفر در پیش ہوا اور یہ نمازیں فرض کی گئیں،اس رات کی صبح کو(مکہ میں) حضرت جابر رضی اللہ عنہ نہیں تھے،لہٰذا ضروری ہے کہ یہ حدیث مرسل ہو،یعنی انھوں نے کسی دوسرے صحابی سے سنی ہو اور اس کا واسطہ ذکر کیے بغیر بیان کی ہو۔[2] لیکن صاحب ’’الإمام‘‘ کے بقول یہ جرح موثر نہیں،کیوں کہ اگر صحابی کا واسطہ ذکر نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا،کیوں کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عدول ہیں اور یہ بات تو بعید ازقیاس ہے کہ انھوں نے کسی تابعی سے یہ حدیث سنی ہو۔ایسی حدیث کا شمار مراسیلِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہوتا ہے،جس کی حجیت میں کوئی کلام نہیں۔’’نصب الرایۃ‘‘ میں ہے: ’’قَالَ فِي الْإِمَامِ: وَھٰذَا الْمُرْسَلُ غَیْرُ ضَارٍّ،فَمِنْ أَبْعَدِ الْبُعْدِ أَنْ یَّکُوْنَ جَابِرٌ سَمِعَہٗ مِنْ تَابِعِيٍّ عَنْ صَحَابِيٍّ،وَقَدْ اشْتَھَرَ أَنَّ مَرَاسِیْلَ الصَّحَابَۃِ مَقْبُوْلَۃٌ وَجَھَالَۃُ عَیْنِھِمْ غَیْرُ ضَارَّۃٍ‘‘[3] ’’الامام میں ہے کہ یہ مرسل مضر نہیں ہے،کیوں کہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث صحابی کے علاوہ کسی تابعی سے سنی ہو اور یہ بات عام ہے کہ مراسیلِ صحابہ رضی اللہ عنہم مقبول(حجت) ہیں اور ان میں سے کسی کی جہالت کوئی نقصان دہ نہیں ہے۔‘‘ یہ حدیث ان مراسیل میں سے نہیں،جن کا ذکر ہم کر چکے ہیں کہ ان میں محذوف راوی کے
Flag Counter