Maktaba Wahhabi

490 - 625
نمازِ فجر پڑھا کرتے تھے۔[1] یہ محال ہے کہ وہ افضل فعل کو نہ کریں اور ادنیٰ کو اختیار کریں،جب کہ فضائل کو اختیار کرنا تو ان پر بس ہے۔یہی بات ’’کتاب الاعتبار‘‘ میں امام حازمی نے بھی لکھی ہے،جسے دیگر علما کے علاوہ امام زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے بھی ’’نصب الرایۃ‘‘ میں نقل کیا ہے۔[2] امام حازمی رحمہ اللہ نے خلفاے ثلاثہ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بھی ذکر کیا ہے۔ایسے ہی حضرت ابن مسعود،ابو موسیٰ اشعری،ابو مسعود انصاری،عبداللہ بن زبیر،عائشہ اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے حضرت عمر بن عبد العزیز اور عروہ بن زبیر رحمہما اللہ کا بھی یہی مسلک لکھا ہے کہ یہ سب اندھیرے میں نمازِ فجر پڑھنے کے قائل تھے۔ اس اندھیرے کا اندازہ کرنے کے لیے کتبِ حدیث میں ایک مادی و حسّی قسم کی دلیل بھی ہے،جس سے فجر کے مستحب وقت(غلس) کو سمجھنے میں کافی آسانی ہو جاتی ہے،چنانچہ بخاری و مسلم،سنن نسائی اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں،حضرت انس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھانا مذکور ہو ہے،اس حدیث میں مذکور ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ سحری کھانے سے فراغت اور نماز شروع کرنے کے مابین کتنا وقت تھا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ﴿قَدْرُ مَا یَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِیْنَ آیَۃً[3] ’’اِتنا وقت تھا کہ جس میں کوئی شخص پچاس آیات کی تلاوت کرتا ہے۔‘‘ اِس حدیث کی رو سے نمازِ فجر کا آغاز سحری کا کھانا بند کرنے کے بعد جلد ہی ہو جاتا ہے۔صرف اتنا فرق کیا گیا ہے کہ جس میں کوئی پچاس آیتیں تلاوت کر سکے اور اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سحری کھانے کے بعد تقریباً وضو کر سکنے کے بہ قدر وقت گزرنے کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔گویا طلوعِ فجر کے ساتھ ہی غلس اندھیرے میں نماز کا ادا کرنا ہی افضل ہے،اسی حدیث سے رمضان یا عام روزے کے لیے سحری سے امساک یا سحری کھانا بند کرنے کے وقت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
Flag Counter