Maktaba Wahhabi

492 - 625
الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ،بِجَمْعٍ،وَصَلَّی الْفَجْرَ قَبْلَ مِیْقَاتِھَا[1] ’’میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو نمازوں کے سوا بے وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب و عشا کو مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھا اور فجر کو اس کے وقت سے پہلے پڑھا۔‘‘ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازِ فجر کو عام ایام سے ذرا جلدی ادا کرنا مراد ہے،مگر یہ بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلوعِ فجر سے بھی پہلے پڑھ لی،بلکہ آغازِ طلوع میں پڑھی گئی اور اس حدیث سے روشنی میں نماز ادا کرنے کو عام عادت شمار کرنے پر استدلال کرنا کسی طرح بھی صبح نہیں ہے۔[2] یہ بھی کہا گیا ہے کہ روشنی کرکے نماز ادا کرنے پر صحابہ کا اجماع ہوگیا تھا۔اس بات پر حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول بطورِ دلیل پیش کیا جاتا ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ’’مَا اجْتَمَعَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَلٰی شَیْیٍٔ مَا اجْتَمَعُوْا عَلٰی التَّنْوِیْرِ‘‘[3] ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی معاملے میں اس طرح اکٹھے نہیں ہوئے،جس طرح وہ فجر کو روشنی میں پڑھنے پر اکٹھے ہوئے۔‘‘ اجماعِ صحابہ کا یہ دعویٰ بھی باطل ہے،کیوں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں لکھا ہے کہ اندھیرے میں نماز فجر ادا کرنا کئی صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار ہے،جن میں صدیق و فاروق رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔امام ابن قدامہ کی ’’المغني‘‘ اور ’’التمہید‘‘ کے حوالے سے ذکر کیا جا چکا ہے کہ علامہ ابن عبد البرنے لکھا ہے کہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ نبیِ اکرم رضی اللہ عنہم،ابوبکر صدیق،عمرفاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم اندھیرے میں نماز فجر پڑھا کرتے تھے۔’’کتاب الاعتبار للحازمي‘‘ میں حضرت علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی اندھیرے میں نمازِ فجر ادا کرنے کا ذکر ہے تو پھر روشنی پر صحابہ کے اجماع کے دعوے کی کیا حیثیت رہ گئی؟ اسی پر بس نہیں،بلکہ امام طحاوی حنفی نے ’’معاني الآثار‘‘ میں حضرت صدیق و فاروق اور
Flag Counter