Maktaba Wahhabi

494 - 625
ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ﴿کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَنْصَرِفُ مِنَ الصُّبْحِ فَیَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلٰی وَجْہِ جَلِیْسِہِ الَّذِيْ یَعْرِفُہٗ فَیَعْرِفُہٗ[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر سے اس وقت فارغ ہوتے کہ آدمی اپنے ساتھ والے جانے پہچانے آدمی کو دیکھتا تو پہچان سکتا تھا۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دوسرے ساتھی کو پہچا ن سکنے والا وقت نماز سے فراغت کا ہے نہ کہ نماز کے آغاز کا۔ایک دوسری حدیث سنن نسائی،مسند احمد اور مسند ابو یعلی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں پانچوں نمازوں کے اوقات مذکور ہیں،جن میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پڑھا کرتے تھے اور نماز فجر کے سلسلے میں وہ فرماتے ہیں: ﴿وَالصُّبْحَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ إِلٰی أَنْ یَّنْفَسِحَ الْبَصَرُ[2] ’’اور صبح کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر سے لے کراس وقت تک ادا فرماتے،جب کافی دور تک چیز یں دیکھی جاسکتیں،یعنی روشنی پھیل جانے تک۔‘‘ اس حدیث کے الفاظ بھی اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ نماز کا آغاز تو اندھیرے میں ہی کرنا چاہیے،البتہ اس سے فراغت روشنی پھیل جانے پر ہو۔﴿اَسْفِرُوْا بِالْفَجْرِ﴾ کا یہی معنیٰ ہے۔امام طحاوی کے بقول امام ابو حنیفہ اور ان کے دونوں صاحبین کا بھی یہی مسلک ہے،جو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق بھی ہے،پھر معلوم نہیں کہ متاخرین احناف نماز کا آغاز تاخیر سے کیوں کرتے ہیں؟ جب کہ ’’المبسوط للسرخسي‘‘ میں بھی مذکور ہے: ’’یُسْتَحَبُّ الْغَلَسُ وَتَعْجِیْلُ الظُّھْرِ إِذَا اجْتَمَعَ النَّاسُ‘‘[3] ’’جب لوگ اکٹھے ہو جائیں تو فجر کو اندھیرے میں اور ظہر کو جلدی ادا کرنا مستحب ہے۔‘‘
Flag Counter