Maktaba Wahhabi

540 - 625
احادیث جماعت کو سنتِ موکدہ کہنے والوں کے دلائل کے ضمن میں اور دو اس کے بعد بھی ذکر کی جا چکی ہیں اور وہ چھے احادیث ہی مطلق ہیں،ان میں سے کسی میں بھی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ فلاں فلاں نماز ہو تو جماعت میں مل جا ؤ اور فلاں فلاں ہو تو نہ ملو،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے،جو پانچوں نمازوں ہی کو شامل ہے۔امام شافعی،احمد،اسحاق بن راہویہ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے اور شیخ ابن باز نے تحقیق ’’فتح الباري‘‘ میں اسے ہی صحیح قول قرار دیا ہے۔[1] جن احادیث میں مذکور ہے کہ نمازِ فجر و عصر کے بعد طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہوتی،وہ احادیث عام ہیں اور دوسری مرتبہ کسی نماز کو ادا کرنے کے لیے جماعت میں شامل ہو جانے والی احادیث خاص ہیں اور صرف ایسے ہی مواقع سے تعلق رکھتی ہیں۔لہٰذا ان میں باہم کوئی تعارض یا تضاد بھی نہیں بنتا،بلکہ اصول میں مذکور تصریحات کی رو سے خاص احادیث کو عام پر مقدم کرنا ضروری ہوتا ہے،بلکہ مطلقاً عام کی خاص پر بنیاد رکھنے کو واجب قرار دیا گیا ہے۔[2] امام شوکانی رحمہ اللہ اور علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ کی تفصیلات کے علاوہ معروف مصری عالم سید سابق نے ’’فقہ السنۃ‘‘ میں ممنوع اوقات کے دوران میں بھی سببی نمازوں کو ادا کرنے کے بلا کراہت جواز والے مسلک کو ’’أقرب إلی الحق‘‘ قرار دیا ہے۔[3] ان اوقات میں نفلی نمازوں کے مکروہ ہونے کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے حضرت عمر،علی،ابن مسعود،ابن عمر،خالد بن ولید،ابوہریرہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے اقوال ملتے ہیں۔تابعین میں سے امام حسن بصری اور سعید بن مسیب رحمہما اللہ بھی اسے مکروہ سمجھتے تھے۔جب کہ ائمہ مذاہب میں سے امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ بھی کراہت کے قائل تھے۔امام شافعی سببی نمازوں کو جائز قرار دیتے تھے اور حنابلہ سببی و غیر سببی سب کی حرمت کے قائل ہیں،سوائے طواف کی دو رکعتوں کے۔البتہ خود اما م احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں جواز کا قول منقول ہے۔[4] جو استثنائی صورتیں بیان کی گئی ہیں،جن میں وہ نمازیں آتی ہیں،جو ان اوقاتِ مکروہہ میں بھی
Flag Counter