Maktaba Wahhabi

542 - 625
ملاحظہ فرمائیں۔[1] اس حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً فرضوں کے فوراً بعد دو سنتیں پڑھنے کی اجازت دی ہے،کیوں کہ یہ بات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت کے ہی خلاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی غلط کام ہوتا دیکھیں تو اس پر نکیر کریں اور نہ ٹوکیں،بلکہ اسے بحال رہنے دیں۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہی کے خلاف بات ہے اور جب اس صحابی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا،بلکہ((فَلَا إِذَنْ﴾ فرماکر اجازت بخشی تو اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ یہ جائز ہے۔اس حدیث سے کبار محدّثین کرام رحمہم اللہ نے بھی یہی مفہوم سمجھا ہے۔چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے: ’’باب فیمن تفوُتُہ الرّکعتان قبلَ الفجْرِ یصلّیہما بعد صلاۃ الصّبح‘‘ ’’جس کی فجر سے پہلے والی دو رکعتیں فوت ہو جائیں،تو وہ انھیں فجر کے فرضوں کے بعد پڑھ لے۔‘‘ امام ابو داود نے یوں تبویب کی ہے: ’’باب من فاتَتْہ متی یقضیہما‘‘ ’’جس کی یہ دو رکعتیں رہ جا ئیں،وہ ان کی قضا کب کرے؟‘‘ اس کے بعد حدیث ذکر کی ہے،جس سے ان کا مقصود واضح ہے کہ وہ فرضوں کے بعد پڑھ لے۔امام ابن ماجہ کی تبویب ہے: ’’بابُ ما جآئَ فیمَنْ فاتَتْہ الرّکعتان قبل صلاۃ الفجر متیٰ یقضیہما‘‘ مفہوم اس کا بھی امام ابو داود کی تبو یب والاہے۔سنن ابی داود والی حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا: ﴿صَلَاۃُ الصُّبْحِ رَکْعَتَانِ﴾ ’’صبح کی نماز تو دو ہی رکعتیں ہیں۔‘‘ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ میں نے پہلی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں،وہ اب ادا کی ہیں: ﴿فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم﴾ ’’تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔‘‘
Flag Counter