Maktaba Wahhabi

559 - 625
﴿لَا تُصَلُّوْا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا أَنْ تُصَلُّوْا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ[1] ’’عصر کے بعد نماز نہ پڑھو،سوائے اس کے کہ سورج ابھی بلند ہو،یعنی زدر نہ ہوا ہو۔‘‘ اس حدیث کی شاہد ایک دوسری حدیث بھی ہے،جو مسند ابی یعلیٰ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس کی سند کو حسن قرار دیا گیا ہے۔اس میں ارشادِ نبوی ہے: ﴿لَا تُصَلُّوْا عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ،وَلَا عِنْدَ غُرُوْبِھَا فَإِنَّھَا تَطْلُعُ وَتَغْرُبُ عَلٰی قَرْنِ شَیْطَانٍ،وَصَلُّوْا بَیْنَ ذٰلِکَ مَا شِئْتُمْ[2] ’’سورج کے طلوع ہوتے وقت اور اس کے غروب ہوتے وقت نماز مت پڑھو،کیوں کہ سورج شیطان کے سینگوں پرطلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے اور اس کے مابین جو چاہو پڑھو۔‘‘ سورج کے شیطان کے سینگوں پر طلوع یا غروب ہونے سے کیا مراد ہے۔اس سلسلے میں اہلِ علم نے کافی کچھ کہا ہے،مختصر یہ کہ ان اوقات میں شیطان اپنے سینگ افق کے اس مقام پر سورج کے سامنے کر دیتا ہے،جہاں اس کے غروب یا طلوع ہو جانے کا مقام ہے اور سورج کی پرستش کرنے والے چونکہ اس وقت سورج کی پوجا کرتے اور اسے سجدہ کرتے ہیں تو شیطان یہ باور کراتا ہے کہ یہ لوگ مجھے سجدہ کر رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ عین طلوع و غروب کے وقت نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے،تاکہ سورج پرستوں سے مشابہت نہ ہونے پائے اور شیطان کی ہوا نہ بندھے۔یہ وجہ احادیث میں بھی مذکور ہے،جو آگے چل کر آئے گی۔البتہ مجبوری کی شکل اس سے مستثنیٰ ہے،جس کی تفصیل بھی آگے چل کرآئے گی۔طلوع و غروب جیسا معاملہ تب بھی ہے،جب سورج عین سر پر ہو۔ بہرحال جو احادیث ابھی ہم نے ذکر کی ہیں،ان سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد نماز کی ممانعت والی احادیث مطلق ہیں اور ان احادیث سے ان کی تقیید ہو جاتی ہے،جن میں عصر سے لے کر غروب تک نماز کی ممانعت آئی ہے،انھیں سورج کے زرد پڑجانے سے لے کر اس کے غروب ہونے تک کے وقت پر محمول کرنا پڑے گا۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ کے بقول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہی مسلک تھا کہ سورج کے زرد
Flag Counter