Maktaba Wahhabi

570 - 625
’’پھر جب سورج سر پر آتا ہے تو وہ دوبارہ سینگ وہیں کر دیتا ہے اور جب سورج ڈھل جاتا ہے تو پھر سینگ الگ کر لیتا ہے۔‘‘ پھر جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو پھر وہیں کر لیتا ہے،اس حدیث کے آخر میں ہے: ﴿نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ الصَّلَاۃِ فِيْ تِلْکَ السَّاَعَاتِ[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ ’’إرواء الغلیل‘‘ میں علامہ البانی نے استواے شمس کے وقت شیطان کے سینگوں کو سورج کے سامنے کرنے والے الفاظ کو منکر قرار دیا ہے،کیوں کہ یہ صحیح مسلم اور دیگر کتب والی حدیثِ عمرو بن عنبسہ کے الفاظ:((فَإِنَّ حِیْنَئِذً تُسَجَّرُ جَھَنَّمُ﴾ کے خلاف ہیں۔اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ مرسل ہے۔اگرچہ اس کی سند کے تمام راوی قوی ہیں۔[2] اس حدیث کے مرسل ہونے کا سبب امام سیوطی رحمہ اللہ نے ’’تنویر الحوالک شرح موطأ الإمام مالک‘‘ میں علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ صنابحی رحمہ اللہ کی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔[3] مرسل حدیث چونکہ ضعیف کی اقسام میں شمار کی جاتی ہے اور اسے حجت نہیں مانا جاتا ہے،یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے موطا میں اس روایت کو ذکر کرنے کے باوجود سورج کے سر پر ہونے کے وقت نماز کے کراہت کے قول کو اختیار نہیں کیا،بلکہ وہ جواز کے قائل تھے اور ساتھ ہی وہ اہلِ مدینہ کا عمل بھی جواز ہی بتاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اگر صرف یہی ایک مرسل روایت ہی ہوتی تو پھر امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک بلاشبہہ صحیح ہوتا،لیکن اب جب کہ تین دیگر احادیث بھی ہیں،جن سے کراہت کا پتا چلتا ہے،جن میں صحیح مسلم کی احادیث بھی ہیں تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی نسبت دیگر ائمہ ثلاثہ اور جمہور کا مسلک ہی اقرب الی السنۃ ہے اور حسن ظن کا تقاضا یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں یہ سمجھ لیا جائے کہ انھیں وہ صحیح احادیث نہیں پہنچی ہوں گی اور صرف ان
Flag Counter