Maktaba Wahhabi

579 - 625
ہے،ورنہ زوال تو ہر روز ہی ہوتا ہے۔البتہ جمعہ کے دن زوال کے وقت بھی نوافل کے جواز کا پتا چلتا ہے۔چنانچہ ’’زاد المعاد في ہدي خیر العباد‘‘ میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے جمعہ کے 33 خصائص ذکر فرمائے ہیں اور ہر خصوصیت پر سیر حاصل بحث کی ہے جو محقق طباعت کے باسٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ان خصائص میں سے گیارھویں خصوصیت یہی لکھی ہے کہ جمعہ کے دن امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کے نزدیک زوال کے وقت بھی نوافل مکروہ نہیں ہیں اور ہمارے استاد ابو العباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا اختیار بھی یہی ہے اور ان کا اعتماد ’’لیث عن مجاہد عن أبي الخلیل عن أبي قتادۃ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ کی سند سے مروی حدیث پر بھی نہیں تھا۔[1] جس میں ہے کہ نصف النہار یا زوال کے وقت نماز مکروہ ہے سوائے جمعہ کے دن کے اور اس میں ہے: ﴿إِنَّ جَہَنَّم تُسَجَّرُ إِلَّا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ[2] ’’ہر روز دوپہر کے وقت جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے،سوائے جمعہ کے دن کے۔‘‘ اس کے برعکس امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا اعتماد اس بات پر تھا کہ جو شخص جمعہ کے لیے آئے،اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ امام کے نکلنے(خطبہ کے شروع کرنے) تک نوافل اور سنتیں پڑھے اور صحیح بخاری ’’کتاب الجمعۃ،باب الدہن للجمعۃ‘‘ اور ’’باب لا یفرق بین اثنین یوم الجمعۃ‘‘ دو مقامات پر) ایسے ہی مسند احمد و سنن دارمی کی ایک صحیح حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: ﴿لَا یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَیَتَطَھَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُھْرٍ،وَیَدَّھِنُ مِنْ دُھْنِہٖ أَوْ یَمَسُّ مِنْ طِیْبِ بَیْتِہِ،ثُمَّ یَخْرُجُ،فَلَا یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ،ثُمَّ یُصَلِّيْ مَا کُتِبَ لَہٗ ثُمَّ یُنْصِتُ إِذَا تَکَلَّمَ الْإِمَامُ إِلَّا غُفِرَ لَہٗ مَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرَیٰ[3]
Flag Counter