Maktaba Wahhabi

586 - 625
کے لیے بھی اذان کہی جاسکتی ہے،بلکہ کہی جانی چاہیے۔قدیم قول کے مطابق امام شافعی،اسی طرح امام ابو حنیفہ،امام احمد،ابو ثور اور امام ابن المنذر رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے کہ فوت شدہ نماز کے لیے بھی اذان دی جائے،جب کہ امام اوزاعی،مالک اور جدید قول کی رو سے امام شافعی کے نزدیک قضا کے لیے اذان نہ کہی جائے گی۔البتہ امام شافعی رحمہ اللہ کے کثیر اصحاب کے نزدیک بھی مذہب مختار یہی ہے کہ اذان کہی جائے،کیوں کہ اس کی دلیل صحیح حدیث ہے۔[1] قائلینِ اذان کے دلائل میں سے ایک تو وہ حدیث ہے،جو صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک رات نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول!ہم سب کچھ دیر آرام کر لیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿أَخَافَ أَنْ تَنَامُوْا عَنِ الصَّلاَۃِ﴾ ’’میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم نماز سے سوئے نہ رہ جاؤ۔‘‘ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں سب کو جگا دوں گا،پس سب لوگ لیٹ گئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے پشت کی ٹیک اپنی سواری سے لگائی تو ان پر بھی نیند غالب آگئی اور وہ بھی سوگئے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بیدار ہوئے جب سورج کا کنارہ افق سے نکل آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے مخا طب ہو کر فرمایا: ﴿یَا بِلالُ!اَیْنَ مَا قُلْتَ؟﴾ ’’اے بلال!تم نے جو وعدہ کیا تھا،اس کا کیا ہوا؟‘‘ تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ﴿مَا اُلِقیَتْ عَلَيَّ نَوْمَۃٌ مِثْلُھَا قَطُّ﴾ ’’مجھے تو ایسی گہری نیند آج تک کبھی نہیں آئی تھی۔‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿إِنَّ اللّٰہَ قَبَضَ أَرْوَاحَکُمْ حِیْنَ شَآئَ وَرَدَّھَا عَلَیْکُمْ حِیْنَ شَآئَ،یَا بِلَالُ!قُمْ فَأَذِّنْ بِالنَّاسِ بِالصَّلَاۃِ ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمھاری روحین جب چاہا قبض کر لیں اور جب چاہا تمھیں لوٹا دیں۔اے بلال!اٹھو اور لوگوں کو نماز کی طرف بلانے کے لیے اذان کہو۔‘‘ بخاری شریف میں آگے یہ الفاظ ہیں:
Flag Counter