Maktaba Wahhabi

595 - 625
یہ تو اس اشکال کا ایک حل ہوا کہ بخاری و مسلم کی احادیث چونکہ صحیح تر اور شکوک و شبہات سے بالا ہیں،لہٰذا یہی کہا جائے کہ صرف نمازِ عصر قضا ہوئی تھیں،جب کہ بعض اہلِ علم نے دوسری رائے اختیار فرمائی ہے اور ترجیح کے بجائے جمع و تطبیق سے اس اشکال کو حل کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ واقعہ خندق صرف ایک ہی دن پر نہیں،بلکہ کئی دنوں پر مشتمل ہے اور یہ مختلف صورتیں،مختلف ایام میں الگ الگ پیش آئیں۔(یعنی یہ سبھی واقع ہوئیں،لیکن کوئی کسی دن اور کوئی کسی دوسرے دن) امام ابن سید الناس جیسے بعض اہلِ علم نے اس جمع و تطبیق سے رفعِ اشکال کو اولیٰ قرار دیا ہے۔[1] امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں نمازوں کے قضا ہونے کے ذکر پر مشتمل حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اگرچہ صحیحین کی حدیث میں صرف ایک نمازِ عصر کا ذکر ہے،لیکن اس حدیث اور ایسی ہی دیگر احادیث،جن میں سے کسی میں دو نمازوں کے قضا ہونے کا ذکر ہے تو کسی میں چار کا،ان میں صحیحین کی حدیث کی نسبت اضافی بات وارد ہوئی ہے اور اس اضافے کو لینا ضروری ہے۔(خصوصاً جب کہ اس کی سند بھی قابلِ حجت ہو) اور کسی راوی نے اگر صرف نمازِ عصر کے ذکر پر ہی اکتفا کیا ہے تو یہ دوسرے(زیادہ نمازوں کو ذکر کرنے والے) راویوں کے لیے ذریعہ تردید و تنقید نہیں بن سکتا،جنھوں نے ظہر و عصر یا چار نمازیں کہی ہیں،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس نے صرف ایک نمازِ عصر کا ذکر کیا ہے،اس نے اپنے علم کے مطا بق ذکر کیا ہے اور جو اُسے معلوم نہیں ہو سکا،وہ اس نے ترک کر دیا ہے(اور جنھیں ایک سے زیادہ نمازوں کی تاخیر و قضا کا علم ہوا،انھوں نے زیادہ بیان کر دیا) اور معروف قاعدہ ہے: ’’مَنْ عَلِمَ حُجَّۃٌ عَلَیٰ مَنْ لَمْ یَعْلَمْ‘‘ ’’جسے کسی بات کا علم ہو گیا،وہ اس پر حجت ہے،جسے اس بات کا علم نہ ہوسکا۔‘‘ اس طرح اس واقعہ کے کئی دنوں میں متعدد بار وقوع پذیر ہونے والی جمع و تطبیق کی بھی ضرورت نہیں رہ جاتی۔[2]
Flag Counter