Maktaba Wahhabi

613 - 625
کو اس کے جائز و مختار یا افضل وقت میں ادا نہیں کر سکے گا اور رات کو باتوں میں جاگنا اسے دن کے وقت سست کر دے گا،جس سے وہ حقوقِ دین،امورِ اطاعت اور دنیوی مصلحتوں سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔‘‘ پھر امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’نمازِ عشا کے بعد باتیں کرنے کے مکروہ ہونے پر علماے امت کا اتفاق ہے،سوائے ان باتوں کے جو خیر پر مبنی ہوں۔مثلاً حصولِ علم کی غرض ہو،مہمان آجائے،دلہن کا دل بہلانا ہو،شفقت و محبت میں اپنے بچوں اور اہلیہ سے کچھ باتیں ہوں،اصلاح بین الناس اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی باتیں ہوں تو ان میں کوئی کراہت نہیں ہے اور ان میں سے بعض امور کے بارے میں صحیح احادیث میں اجازت وارد ہوئی ہے۔‘‘[1] جن احادیث و دلائل کی بنا پر نمازِ عشا کے بعد باتوں کو جائز قرار دیا گیا ہے،خصوصاً جب کہ وہ باتیں بھلائی اور دینِ و آخرت کی ہوں،علم سے تعلق رکھتی ہیں یا پھر وہ باتیں ہوں جو حوائج ضروریہ میں شمار ہوتی ہیں،مثلاً اہلیہ،بچوں اور مہمان سے گفتگو،ان امور کے جواز پر اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے جو سنن ترمذی،نسائی اور مسند احمد میں ہے،جس میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ النَّبِيّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَسْمُرُ ھُوَ وَ أَبُوْ بَکْرٍ فِي الْأَمْرِ مِنْ أُمُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَنَا مَعَھُمَا[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی فلاح کے امر میں سے کسی امر میں(نمازِ عشا کے بعد) باتیں کرتے تھے اور(میں بھی) ان کے ساتھ ہوتا تھا۔‘‘ جواز کی دوسری دلیل صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کے گھر مہمان بن کر گیا اور یہ اس رات تھا جب کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter