Maktaba Wahhabi

171 - 276
ہیں۔ البتہ وہ اجازت دے دیں تو اور بات ہے۔ مسئلہ امامت میں درج ذیل باتیں توجہ طلب ہیں: ( سمجھ دار بچہ امامت کراسکتا ہے۔ حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے چھ یا سات سال کی عمر میں اپنی قوم کی امامت کرائی تھی کیونکہ ان کو سب سے زیادہ قرآن یاد تھا۔ [1] ( نابینے کی امامت درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا وہ لوگوں کی امامت کراتے رہے،حالانکہ وہ نابینا تھے۔[2] ( فرض نماز پڑھنے والا نفل پڑھنے والے کی اور نفلی نماز پڑھنے والا فرض پڑھنے والے کی امامت کرا سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے اور پھر جا کر اپنی قوم کو وہی (عشاء کی) نماز پڑھاتے۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی نماز نفل اور لوگوں کی فرض نماز ہوتی تھی۔‘‘ [3] ( تیمم کر کے نماز پڑھائی جاسکتی ہے۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تیمم کرکے نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے درست قرار دیا۔ [4] ( مسافر بھی امامت کرا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر مکہ والوں کو مغرب کی نماز کے سوا دیگر نمازیں دو دو رکعتیں پڑھائیں،اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ’’مکہ والو! کھڑے ہوکر دو رکعتیں اور پڑھ لو کیونکہ ہم مسافر ہیں۔‘‘ [5]
Flag Counter