Maktaba Wahhabi

88 - 276
سے تبدیل ہوجائے جو عام طور پر اس کے ساتھ رہتی ہے،مثلاً کائی اور درخت کے پتے۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس پر پانی ہی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں قاعدہ یہ ہے جس پانی پر بغیر کسی قید اور شرط کے لفظ ’’ماء‘‘ (پانی) بولا جائے،اس کے ساتھ طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا﴾ ’’تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کرلو۔‘‘[1] ( استعمال شدہ پانی : اس سے مراد وہ پانی ہے جو وضو یا غسل کرنے والے کے اعضاء سے گرتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ وہ عام پانی کی طرح پاک ہے۔ کیونکہ اصل کے لحاظ سے یہ پاک ہے اور کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو اس کو اس کے اصل وصف (طہوریت) سے الگ کرے۔ ( وہ پانی جس کے ساتھ پاکیزہ چیزیں مل جائیں اور اس سے الگ نہ ہو سکیں : مثلاً صابن،زعفران اور آٹا وغیرہ اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک وہ مطلق پانی رہے اور اس کے نام میں تبدیلی نہ آئے تو وہ طاہر اور مطہر (پاک کرنے والا) ہے۔ جب وہ ماء مطلق (عام پانی) کے ضمن میں نہ آئے تو وہ خود تو پاک ہوگا لیکن کسی دوسری چیز کو پاک کرنے والا نہیں ہو گا۔ ( وہ پانی جس کے ساتھ گندگی ملی ہوئی ہو : اس کی دو حالتیں ہیں: 1نجاست سے پانی کا ذائقہ،رنگ یا بو تبدیل ہوجائے تو ایسی صورت میں اس سے طہارت حاصل کرنا بالاتفاق ناجائز ہے۔ 2 اگر پانی کا رنگ،بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے،اس سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے،پانی کم ہو یا زیادہ،دونوں حالتوں میں برابر ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
Flag Counter