Maktaba Wahhabi

129 - 326
تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ان کا اختلاف صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے اور اس مسئلہ میں بھی امت کے اکثر علماء بالااتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اپنی آنکھوں سے اللہ کی زیارت نہیں کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احیدیث اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم وائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال سے یہی بات ثابت ہوتی ہے‘‘ یہ بات عبداللہ بن عباس حفظہ اللہ سے ثابت ہے نہ امام احمدرحمہ اللہ اور دیگر ائمہ سے کہ انہوں نے کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشم سراللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے بلکہ ان سے یا تو مطلقا ’’دیکھنے‘‘ کا لفظ ثابت ہے۔ یا ’دل سے دیکھنے کا۔‘‘ واقعہ معراج بیان کرنے والی اس کسی صحیح حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ رہی وہ حدیث جو ترمذی وغیرہ نے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَتَانی رَبِّی فِی أَحْسَنِ صُورَۃٍ) ’’میرے پاس میرا رب بہترین صورت میں تشریف لایا‘‘[1] تویہ خواب کا واقعہ ہے جو مدینہ منورہ میں پیش آیا اور روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ اسی طرح حضرت ام طفیل حفظہ اللہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی جن احادیث میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کا ذکر ہے، وہ مدینہ منورہ کا واقعہ ہے اور احادیث میں ا س کی تصریح موجود ہے اور معراج تومکہ مکرمہ میں ہوئی تھی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی﴾ (الاسراء۱۷؍۱) ’’پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا۔‘‘ قرآن مجید میں صریح الفاظ میں موجود ہے کہ موسی علیہ اقامت سے فرمایا گیا تھا۔ (لَنْ تَرَانِیْ) ’’تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا۔‘‘ اور اللہ کے دیدار کا معاملہ آسمان سے کتاب نازل کرنے سے عظیم ترہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَسْئَلُکَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآئِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰہَ جَہْرَۃً ﴾ (النساء۴؍۱۵۳) ’’اہل کتاب آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے لکھی لکھائی کتاب ناز کریں۔ انہوں نے موسی علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں صاف طور پر اللہ تعالیٰ کو دکھادیجئے۔‘‘ اس لئے جو شخص کہتا ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکتا ہے تو وہ گویا یہ کہہ رہا ہے کہ وہ شخص جناب موسیٰ علیہ السلام سے بھی عظیم ہے۔اور اس کادعویٰ تو اس شخص سے بھی بڑھ کر ہے جو کہنے لگے کہ ا للہ نے مجھ پر آسمان سے کتاب نازل کی ہے۔ (خلاصہ کلام یہ ہے کہ) صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین عظام اور ائمہ مسلمینj سب کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زیارت آنکھوں سے آخرت میں ہوگی‘ دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن خواب میں اس کی زیارت ہوسکتی ہے اور دلو ں کے حالات کے مطابق قلبی مکاشفات اور مشاہدات ہوسکتے ہیں۔ بسا اوقات کسی شخص کا قلبی مشاہدہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ آنکھ سے دیدار ہوا ہے۔ یہ ا سکی غلط فہمی ہے اور دلوں کے مشاہدات بندوں کے ایمان ومغفرت کے مطابق (قوی اور
Flag Counter