Maktaba Wahhabi

512 - 625
الصغیر‘‘(2/ 3/ 275) میں علامہ البانی نے اس حدیث کو مرفوعاً ضعیف قرار دیا ہے۔’’المرقاۃ شرح المشکاۃ‘‘ میں ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ فتویٰ اسی پر ہے کہ شفق سے مراد سُر خی ہے۔ در مختار میں بھی سُرخی ہی لکھا گیا ہے اور ’’صدر الشریعۃ‘‘ نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے۔’’المواہب‘‘ میں بھی اسی پر فتویٰ بتایا گیا ہے اور ’’البرہان‘‘ میں بھی سُرخی کو ترجیح دی گئی ہے اور ’’شروح المجمع‘‘ وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی اپنے پہلے قول یعنی سفیدی سے رجوع کر لیا تھا۔گویا ان کے نزدیک بھی شفق سے مراد سرخی ہی ہے۔یوں معاملہ طے ہو گیا کہ چاروں ائمہ مذاہب شفق سے مراد سُرخی ہونے پر متفق ہیں۔الحمدللہ نمازِ مغرب کا وقت غروبِ آفتاب سے شفق نمایاں ہونے تک ہے،لیکن یہ تاخیر عذر اور مجبوری والے کے لیے روا ہے،ورنہ اوّل وقت ہی میں نمازِ مغرب پڑھنا افضل ہے،کیوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غروبِ آفتاب کے فوراً بعد روشنی ہی میں نمازِ مغرب پڑھ لیا کرتے تھے۔چنانچہ صحیح بخاری،مسلم،ابو عوانہ،سنن بیہقی،مسند احمد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ﴿کُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَیَنْصَرِفُ أَحَدُنَا وَإِنَّہٗ لَیَبْصِرُ مَوَاقِعَ نَبْلِہٖ[1] ’’ہم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نمازِ مغرب پڑھتے کہ نماز پڑھ کر ہم میں سے کوئی نکلتا تو تیر پھینکنے پر وہ اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ سکتا تھا،یعنی ابھی اتنی روشنی ہوتی تھی۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّي الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ،وَتَوَارَتْ بِالْحِجَابِ[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے،جب سورج غروب ہوتا اور اس کی ٹکیا چھپ جاتی۔‘‘
Flag Counter