Maktaba Wahhabi

513 - 625
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دو نوں حدیثیں اس بات کی دلیل ہیں کہ غروبِ آفتاب کے بعد نمازِ مغرب کو جلد پڑھ لینا چاہیے،اس بات پر اجماع ہے اور جن احادیث میں شفق کے غائب ہونے پر نمازِ مغرب پڑھنے کا ذکر ہے،وہ بیان جواز کے لیے ہیں۔دوسرے یہ کہ وہ کسی سائل کے جواب میں تھیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ کے بارے میں ہیں،جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل قائم رہے،لہٰذا اُن پر اعتماد نہیں ہوگا۔[1] اہلِ بیتِ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں سے ایک صحیح بخاری،مسلم،ابی عوانہ،سنن ابی داود اور دیگر کتب میں مذکور ہے،جس میں 74ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی کے امیر بن کر مدینہ آنے کے وقت کا واقعہ درج ہے۔چنانچہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پوتے حضرت محمد بن عمر و بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ جب حجاج آیا تو ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھا۔صحیح مسلم میں حجاج کی موجودگی میں اس سوال کا سبب بھی لکھا ہے: ’’کَانَ الْحَجَّاجُ یُؤَخِّرُ الصَّلَاۃَ‘‘ ’’حجاج نماز میں تاخیر کیا کر تا تھا۔‘‘ لہٰذا اسے تنبیہ کرنے کے لیے یہ سوال پوچھا گیا تو اس وقت حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پنج گانہ کا جو وقت بتایا،اس میں نماز مغرب کے بارے میں فرمایا: ﴿کانَ النبُّي صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصَلِّي الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ[2] ’’نبیِ اکرم نمازِ مغرب اسی وقت پڑھ لیا کرتے تھے،جب سورج غروب ہوتا۔‘‘ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے سنن ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں مروی ایک مرفوع حدیث ہے،جسے امام ترمذی نے موقوفاً صحیح کہا ہے اور بعض محدّثین نے اسے منکر بھی کہا ہے،لہٰذا یہ قابلِ استدلال نہ بھی مانی جائے تو کم از کم صحیحین اور سنن والی پہلی احادیث کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے،جس کے الفاظ ہیں: ﴿لَا تَزَالُ أُمَّتِيْ عَلَی الْفِطْرَۃِ مَا لَمْ یُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ حَتَّیٰ تَشْتَبِکَ النُّجُوْمُ[3]
Flag Counter